انقلابی عمل کی ناگزیر ضرورتیں

436

جاوید اکبر انصاری
انقلابی عمل نظام کے مکمل خاتمے اور تعمیر نو کا ذریعہ ہے۔ نظام اس کلی حیثیت (Structure) کو کہتے ہیں جو ایک خاص نوعیت کی انفرادیت، معاشرت اور نظام اقتدار و ریاست کو مربوط رکھتا ہے۔ نظام منجمد نہیں سیال ہوتے ہیں۔ انفرادیتیں، معاشرتیں اور ریاستیں مستقل تشکیل اور انتشار کے عمل سے گزرتی رہتی ہیں۔ ہر نظام زندگی ایک مخصوص غالب روحانیت کا مظہر ہوتا ہے۔ دور حاضر کی غالب سرمایہ دارانہ روحانیت حرص اور حسد، شہوت اور غضب میں مضمر ہے۔ اس خبیث روحانیت کو شکست دینے کی اسلامی جدوجہد انفرادی، معاشرتی اور ریاستی سطح پر جاری ہے۔ یہ جدوجہد مصلحین، مبلغین، معلمین، مجاہدین اور اسلامی انقلابی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظاماتی غلبہ کے تناظر میں انقلابیوں کی تعداد عموماً نہایت محدود ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظاماتی تغلب کی ہمہ گیریت ہے۔ انقلابی کارکنان تحریکات تحفظ اور غلبہ دین کا وہ جتھا ہیں جو اس بات کا احساس رکھتا ہے کہ:
٭ انفرادی، معاشرتی اور ریاستی سطح پر شیطانی روحانیت (روحانیت حرص و حسد) کے خلاف جدوجہد نہایت ضروری ہے اور یہ جدوجہد الحمدللہ مصلحین، مبلغین، صوفیا اور علما بطریق احسن جاری رکھے ہوئے ہیں۔
٭ لیکن یہ جدوجہد منتشر ہے اور کسی ایک شعبہ (مثلاً تعلیم، تطہیر نفوس، قانون) کی اصلاح خود بخود شیطانی روحانیت کے غلبے کو متزلزل نہیں کرتی۔
٭ شیطانی روحانیت کو منہدم کرنا ہے تو مصلحین کی منتشر جدوجہد کو اس طرح مرتب کرنا ہوگا کہ معاشرتی اور ریاستی اقتدار مخلصین دین کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتا رہے۔
اس ضمن میں اسلامی انقلابی ایسی طویل المدت حکمت عملی کی تشکیل اور تنفیذ کی کوشش کریں جس کے نتیجے میں مخلصین دین کے تمام گروہ متحد اور معاشرتی سطح پر بااقتدار ہوتے چلے جائیں۔ اس حکمت عملی کی تنفیذ کے لیے دوضرورتوں کو پورا کرنا لازمی ہے۔ پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ انقلابی جماعت اپنی عددی اور نظریاتی محدودیت کا ادراک کرے۔ انقلابیوں کی جماعت برصغیر میں ہمیشہ تحریک غلبہ اور تحفظ دین میں ہمیشہ ایک اقلیتی جماعت رہی ہے (یہ بات جہاد ۱۸۵۷کے انقلابیوں سید بادشاہ اور صادق پوری سیدوں کی جماعتوں، حاجی شریعت اللہ کی تحریک، حضرت اسیرمالٹا کی تحریک ریشمی رومال اور تحریک احرار سب کے بارے میں کہی جاسکتی ہے) اور اس کا اساسی نظریہ دیگر تحریکات دین کے لیے اجنبی اور نامانوس رہا ہے ان دوریوں کو پاٹنے کی اشد ضرورت ہے اور اپنے نظریاتی اثاثے کو برصغیر کی علمی اور روحانی روایات سے مربوط کرکے سب کے لیے قابل قبول بنانے کی جدوجہد لازمی ہے۔
دوسری ضرورت اقتدارکی کشمکش کی نوعیت سے آگاہی ہے سرمایہ دارانہ معاشرتوں اور ریاستوں میں اقتدار کی کشمکش ہمہ جہت ہوتی ہے اور ہروقت جاری رہتی ہے، لیکن اس کی شدت (Intensity) میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ مطالباتی شدت (Intensity) میں اضافہ کا پہلے سے تعین نہیں کیا جاسکتا اور شدت میں اضافہ عموماً مزاحمتی مطالبات کی توسیع سے آتی ہے (جیسا کہ حالیہ سوڈان اور ہانگ کانگ کی مزاحمتی تحریکوں سے ظاہرہے) مزاحمت کا ہدف کسی مخصوص سرمایہ دارانہ ظلم کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا بالکلیہ انہدام بھی۔
انفرادی مزاحمتیں ان معنوں میں عموماً ناکام ہوتی ہیں کہ ان کے مطالبات کی منظوری کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام اپنی تشکیل نو کرلیتا ہے لیکن مطالباتی تحریک کی یہ ناکامی اس بات کی گنجائش پیدا کرتی ہے کہ آئندہ چل کر پہلے سے زیادہ طاقت ور مزاحمتی تحریک مرتب کی جائے۔ انتخابات بھی اس مزاحمتی جدوجہد سے ایک معرکہ کے طورپر لڑے جاسکتے ہیں۔
انقلابی جماعت کو ہر اس مزاحمتی تحریک کے ہراول دستہ کے طورپر کارفرما ہونا چاہیے جو کوئی بھی راسخ العقیدہ اسلامی مصلحین کا گروہ یا سرمایہ دارانہ گروہ کسی مخصوص سرمایہ دارانہ ظلم کے خلاف تحریک برپا کررہی ہے کیونکہ یہ تحاریک لازماً سرمایہ دارانہ نظاماتی تغلب کو کمزور کرنے کا ذریعہ بنائی جاسکتی ہیں۔ ہمیں مصلحین کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہیے کہ مزاحمتی تحریک کے اہداف کو بتدریج وسعت دے کر نظام سرمایہ داری کے بالکلیہ انہدام کی طرف پیش رفت کریں۔ اس نوعیت کا ایک نامکمل تجربہ ہم میں کرچکے ہیں۔ جب بھٹو مخالف تحریک کو تحریک نظام مصطفی میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس کا کما حقہ فائدہ نہ اٹھایا جاسکا کیونکہ ہر مخلصین دین کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے اور انہیں مسجد کی سطح پر منظم کرنے میں ناکام رہے اس کے باوجود آئندہ دس سال تک شعائر اسلامی کا معاشرتی عروج جاری رہا۔ مصلحین کی مزاحمتوں سے کنارہ کشی ہمیں مخلصین دین کے حلقوں میں تنہا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے برعکس مزاحمتی مہمات ہمیں موقع فراہم کرتی ہیں کہ:
٭ ہم مصلحین کو باور کرائیں کہ سرمایہ داری کا خاتمہ، تحفظ اور غلبہ دین کے لیے ضروری ہے اور سرمایہ دارانہ غلبے کے خلاف ایک طویل المدت جدوجہد برپا کی جائے جس کے نتیجہ میں مخلصین دین متحرک بھی ہوں اور مسجد کی سطح پر منظم بھی تاکہ ریاستی اقتدار ان کے ہاتھوں میں مرتکز کیا جاسکے۔
٭ اس جدوجہد میں تمام دہریہ جماعتیں اسلامی اتحاد کی فطری حریف ہیں اور ان سے اشتراک عمل صرف اس حد تک کیا جاسکتا ہے جہاں تک وہ نظاماتی سطح پر مخلصین کو بااقتدار بنانے پر مجبور کی جاسکتی ہوں۔
٭ مخلصین دین کو باور کرائیں کہ انقلابی تحریکات تحفظ اور غلبہ دین کو متحد کرنے اور بااقتدار بنانے کی پیہم جدوجہد کرتے رہیں گے۔