حکیم محمد سعید کے کارنامے

2539

مسعود احمد برکاتی
تاریخ کی یہ عادت ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی شخصیات کی خوبیوں اور خامیوں کو زیادہ نمایاں کرتی جاتی ہے اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ تاریخ کا فیصلہ عصری فیصلے کے برعکس ہوتا ہے۔ جو خامیاں شمار ہو رہی تھیں وہ خوبیاں لکھی جاتی ہیں اور جو خوبیاں بیان کی جاتی ہیں انہیں کمزوریاں کہا جانے لگتا ہے۔ کسی شخصیت کے کارناموں کو نتائج و اثرات کے اعتبار سے تولا جاتا ہے اور مثبت یا منفی نتیجہ نکالا جاتاہے، کیونکہ معاصرت کا پردہ درمیان سے ہٹ جاتا ہے۔ معاصرت بجائے خود غیر جانبداری اور توازن میں رکاوٹ بنتی ہے اور اس کی وجہ سے بعض اوقات خوب بھی ناخوب نظر آنے لگتا ہے اور اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ شہید حکیم محمد سعید کے کارناموں کو پورے طور صحیح تناظر میں دیکھنے، سمجھنے اور جانچنے میں ابھی وقت لگے گا، لیکن شہادت کے بعد سات برس میں حکیم صاحب کی خدمات کے مثبت اور مفید پہلو اور زیادہ سامنے آئے اور ان کی عظمت کا ا حساس بڑھتا رہا۔
احتیاط سے کام لینے کے باوجود ان کی شخصیت کو عدیم النظیر کہا جا سکتا ہے، کیونکہ انہوں نے جو کام کیے ان کی مثال ہماری ہم عصر تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔ شہید حکیم محمد سعید کی خدمات میں ان کے ایک بہت ممتاز اور مقبول معالج ہونے کے علاوہ ان کے صاحب دانش، مصلح اخلاق، بہترین منتظم، مخیر اور انسان دوست ہونے کی حیثیت سے بھی ان کی جدوجہد شامل ہے۔ حکیم صاحب نے ایک نہیں کئی ادارے بنائے۔ اس لحاظ سے وہ ایک ادارہ نہیں ، ادارہ ساز تھے۔
آج سے 47 برس پہلے (1958 میں) ایک معیاری طبیہ کالج قائم کیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں طب قدیم ایک شدید بحران سے محفوظ رہی۔ اس کالج میں حکیم صاحب نے بچے کھچے فاضل اطباء کو بحیثیت استاد مقرر کر کے ان کے علم کو ان کے ساتھ دفن ہونے سے بچایا اور ان کے علم کو نئی نسل میں منتقل کر کے ا س فن شریف کے قدم مستقل جما دیئے۔ وہ ہمدرد پبلک اسکول سے لے کر ہمدرد یونی ورسٹی تک متعدد اداروں کے بانی اور روح و رواں تھے۔ لیکن میں اس وقت صرف چند الفاظ میں حکیم صاحب کی ان خدمات پر کچھ کہنا چاہتا ہوں جو بچوں کی تعلیم و تربیت ، ترقی اور فلاح کے لیے انہوں نے انجام دیں۔
جیساکہ خود حکیم صاحب نے لکھا ہے کہ نوعمری میں انہیں صحافی بننے کا شوق تھا۔ واقعی ان کا رجحان قلم کاری کی جانب تھا۔ انہوں نے بالکل نوعمری میں ہی ایک افسانہ ’’تسبیح‘‘ لکھ ڈالا، جو کم سے کم اس حد تک تو غنیمت تھا کہ شائع ہو گیا لیکن خاندانی مصالح اور ضروریات کی وجہ سے انہوں نے طب پڑھی اور گریجویشن کرتے ہی ان کے صحافتی ذوق کا سامان ہوگیا۔ بڑے بھائی حکیم عبدالحمید صاحب نے انہیں ہمدرد صحت سے وابستہ کر دیا اور پروف ریڈنگ جو صحافت و اشاعت کا پہلا سبق ہے، اس سے گزار کر مدیری تک پہنچا دیا۔ حکیم محمد سعید مدیر ہمدرد صحت ہوگئے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے 1940 میں ہمدرد صحت کا پہلا شمارہ مرتب کیا ، برادر بزرگ کے علاوہ چند دیگر ادیبوں کی صحبت اور تجربے نے اس نوجوان مدیر کو جلد ہی مانجھ دیا۔ حکیم صاحب نے پاکستان ہجرت کے بعد جلدہی کراچی سے بھی ہمدرد صحت جاری کر دیا، جو الحمدللہ آج بھی جاری ہے۔ حکیم صاحب کی دلچسپی آخر تک رہی۔ وہ اس رسالے کے مضامین پر اشاعت سے پہلے ایک نظر ضرور ڈالتے تھے۔
بچوں کے لیے شہید حکیم محمد سعید کا پہلا اہم بلکہ تاریخی کام رسالہ ’’ہمدرد نونہال‘‘ جاری کرنا تھا۔ انہوں نے 1953 میں کراچی سے یہ رسالہ جاری کیا۔ حکیم صاحب کی زندگی میں اس رسالے کی عمر 46 سال ہوگئی تھی۔ آج 53 سال ہونے کے بعد بھی الحمدللہ یہ رسالہ پوری توانائی، باقاعدگی اور اپنے مخصوص مزاج کے مطابق بچوں کی ذہنی تعمیر میں مصروف ہے اور بقول ڈاکٹر جمیل جالبی پانچ نسلوں کی تربیت کر چکا ہے۔ حکیم صاحب ہمدرد نونہال کے صرف بانی ہی نہیں تھے بلکہ یہ ہمیشہ ان کی مصروفیات کا حصہ رہا۔ وہ پابندی سے اس کے لیے اپنا کالم جاگو جگائو لکھتے تھے۔ ان کی کسی مصروفیت نے بھی اس کالم کو ناغہ نہیں ہونے دیا۔ وہ وفاقی وزیر رہے ہوں یا صوبے کے گورنر، ہمدرد نونہال کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ لکھتے تھے۔ میری درخواست پر انہوں نے ایک کالم طبی مشورے شروع کیا تھا۔ ہم انہیں صحت سے متعلق سوالات پیش کر دیتے تھے اور وہ لازماً دوسرے دن ان کے جوابات لکھ کر دے دیتے تھے۔
بچوں کے ادب سے حکیم صاحب کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جس دن ہمدرد نونہال کا تازہ شمارہ چھپ کر آتا، حکیم صاحب اسی رات کو پہلے صفحے سے آخری صفحے تک پورا رسالہ پڑھ ڈالتے۔ سرخ قلم ان کے پاس ہوتا تھا جہاں کہیں کوئی کمی یا غلطی نظر آتی اسے انڈرلائن کرتے، یہاں تک کہ پروف خوانی میں کوئی غلطی رہ جاتی تو وہاں بھی سرخ قلم کام کرتا تھا۔ حکیم صاحب کو کتابوں میں، خصوصاً بچوں کی کتابوں میں املا اور تلفظ کی صحت کا بڑا خیال رہتا تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ بچے کے ذہن میں غلط لفظ جم جائے تو وہ عمر بھرصحیح لفظ نہیں پڑھ سکے گا۔ خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ وہ اچھی تحریروں پر کھل کر داد بھی دیتے اور حوصلہ افزائی میں کمی نہیں کرتے۔
رسالہ ہمدرد نونہال ہر اچھے تعلیمی، علمی، ادبی اور فنی رسالے کی طرح خسارے کا سودا تھا اور بعض وقت منتظمہ کی طرف سے مصارف کی زیادتی کا مسئلہ اٹھایابھی جاتا تھا، لیکن حکیم صاحب کے سامنے کوئی دلیل نہیں چلتی تھی۔ وہ فرماتے تھے کہ میں اس کی قومی افادیت و اہمیت اور ہمدرد کے لیے اس کی ضرورت کے مقابلے میں کسی نقصان کونقصان نہیں سمجھتا۔ بچوں کے لیے معیاری اور پاکیزہ ادب فراہم کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ان کے لیے بہتر غذا مہیا کرنا۔ رسالے کی مقبولیت سے بہت مطمئن ہوتے تھے۔ ان کے پاس مطب میں جو بچے آتے تھے ان سے معلوم کرتے کہ وہ کورس کے علاوہ کیا پڑھتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ ہمدرد نونہال بچوں کےکسی بھی رسالے کا نام لیتا تو بہت خوش ہوتے۔
حکیم صاحب بچوں کے مطالعے کی عادت کو بہت ضروری سمجھتے تھے۔ کردارسازی کے لیے اچھی کتابیں پڑھنا پہلا قدم ہے۔ مطالعے کی عادت ڈالنے میں کتابوں سے زیادہ رسالے مفید ہوتے ہیں، کیونکہ بچے کو جو رسالہ پسند آگیا وہ اسے مستقل پڑھنا شروع کر دیتا ہے اور اس کا انتظار کرتا ہے۔ 1978 میں حکیم صاحب نے بچوں کے لیے دلچسپ اور علمی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کرایا۔ پھر1988 میں نونہال ادب کے نام سے ہمدرد فائونڈیشن کا ایک مستقل شعبہ قائم کر دیا جو پانچ سو سے زیادہ کتابیں شائع کر چکا ہے۔ اس شعبے کو خاص ہدایت تھی کہ بچوں کے لیے ایسی کتابیں شائع کی جائیں جو ایک طرف تو دلچسپ اور سلیس و سادہ زبان میں لکھی ہوئی ہوں، دوسرے ان کے مطالعے سے بچوں میں معلومات خصوصاً سائنسی معلومات حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو۔ بچوں کے لیے ایک سائنس انسائیکلوپیڈیا بھی مرتب کرنے کا پروگرام بنایا جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
سائنس کے علاوہ ایسی کتابوں کی اشاعت بھی پروگرام کا حصہ ہے جس کے مطالعے سے وہ اسلاف کے علمی کارناموں سے واقف ہوں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی خیال رکھا جائے کہ کتاب صاف ستھری اور خوبصورت چھپی ہوئی ہو مگر قیمت زیادہ نہ ہو اور کسی بھی صورت میں کتابوں کی اشاعت کو نفع اندوزی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
شہید حکیم محمد سعید نے میرے اصرار پر بچوں کے لیے اپنے حالات لکھے۔ اپنے بچپن کی باتیں بھی مزے لے لے کر بیان کی ہیں۔ ’’بچوں کے حکیم محمد سعید‘‘ کے نام سے ایک بڑی مفید کتاب وجود میں آئی (1962 میں) ۔ اس میں ایک جگہ نونہالوں کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں:
’’ اچھا بھئی ایک اور دلچسپ بات بتائوں۔ یہ تمہارے لیے سبق آموز ہوگی۔ میں بچپن میں شریر تو تھا،لیکن شرمیلا بھی تھا۔ نئے آدمیوں کے سامنے جھجکتاتھا۔ زیادہ باتیں نہیں کرتا تھا۔ کم گوتھا اور تقریر کرنا۔۔۔تقریر کرنا تو میرے بس میں بالکل نہیں تھا۔ زبان بھی رکتی تھی، لیکن مطالعے اور تحریر میں مشق اور عبور کے بعد تقریر بھی میری ضرورت تھی۔ میں نے پڑھا تھا کہ دنیا کے بعض مشہور مقررین شروع میں اسٹیج پر کھڑے ہو کر بالکل نہیں بول سکتے تھے۔ زبان ہی نہیں کھلتی تھی، مگر انہوں نے اپنے ارادے اور مشق و محنت سے تقریر کرنے کا فن سیکھا اور اس میں خوب نام پیدا کیا۔ میں نے بھی یہی کیا۔ شروع شروع میں، میں صرف لکھ کر تقریر پڑھتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ زبانی بولنا شروع کیا اور مشق بڑھاتا رہا۔ اب اللہ کے فضل سے میں اسٹیج پر بلاتکلف بولتا ہوں اور لمبی لمبی تقریریں کرتا ہوں‘‘۔
یہ لکھ کر حکیم صاحب نے نہ صرف شرمیلے بچوں میں اعتماد اور حوصلہ پیدا کیا اور ان کو ترقی کا راستہ دکھایا، بلکہ بچوں کی مجلسی تربیت کے لیے ایک مستقل سلسلہ شروع کیا، جس کا نام پہلے تو انہوں نے ’’بزم ہمدرد نونہال‘‘ رکھا، لیکن چند سال بعد اس سلسلے کو مزید ترقی دی اور اس کا نام ’’ہمدرد نونہال اسمبلی‘‘ رکھا۔ اس کے اجلاس ہر ماہ ہوتے ہیں اور اس میں حصہ لینے والے بہترین مقرربن کر نکلتے ہیں اور نام کماتے ہیں۔ بعض تو نیشنل اسمبلی اور وزارت تک پہنچ گئے۔ خاص بات یہ ہے کہ حکیم صاحب نے صرف یہ ادارے ہی قائم نہیں کیے بلکہ اس میں خود بھی پابندی سے شریک ہوتے تھے۔ ایک با ر بھی ناغہ نہیں کیا۔ خود بھی اس اسمبلی میں تقریر فرماتے تھے۔ اس اسمبلی کے ذریعے سے حکیم صاحب نے نونہالوں کو پابندیٔ وقت کا بھی سبق دیا۔ ہمدرد کی دوسری تقاریب کی طرح ہمدرد نونہال اسمبلی بھی منٹوں، سیکنڈوں کے حساب سے مقررہ وقت پر شروع ہوتی ہے۔ اب بچوں کو پابندیٔ وقت کی عادت پڑگئی ہے۔ اب حکیم صاحب کی جانشین محترمہ سعدیہ راشد بھی پابندی سے نونہال اسمبلی میں شریک ہوتی ہیں۔

شعبہ نونہال ادب قائم ہوا تو معروف اہل قلم کے علاوہ نئے لکھنے والوں سے بھی کتابیں لکھوائی گئیں، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکیم صاحب نے خود بھی بچوں کے لیے کتابیں لکھنی شروع کیں اور ان کی بے پناہ قوت عمل کا یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ انہوں نے چند سال میں ایک نہیں کوئی سو کتابیں لکھ ڈالیں۔ ان کتابوں میں 42 سفرنامے بھی شامل ہیں، جو بچوں اور نوجوانوں کے لیے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ 1992 میں انہیں خیال آیا کہ بچوں کے لیے اپنا روزنامچہ یا ڈائری لکھنی چاہیے، چنانچہ ہر مہینے کے تیس دنوں کی یک کتاب شائع ہونے لگی۔ ’’سچی کہانی‘‘ کے نام سے ان بارہ کتابوں میں حکیم صاحب کے مشاغل کے علاوہ ان کی سوچ، ان کی زندگی، حالات پر ان کا تاثر اور بہت کچھ شامل ہے۔ ان کتابوں کے ذریعے سے ’’حکیم محمد سعید‘‘ کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سبق آموز واقعات کو بھی آسان زبان میں چھوٹی چھوٹی پانچ کتابوں میں مرتب کر دیا۔ اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور فروخت کے لحاظ سے اس کتاب نے ایک ریکارڈ قائم کیا۔
محترم احمد ندیم قاسمی صاحب نے کیا خوب لکھا:
’’حکیم صاحب کے مخاطب بچے ہیں، اس لیے جہاں بھی ان کو موقع ملتا ہے وہ بچوں کی کردار سازی کا فرض ادا کرتے چلے جاتے ہیں اور ی یہ فرض وہ اتنے سلیقے سے ادا کرتے ہیں کہ بچوں کے باطن میں خیر اور نیکی کا جذبہ یوں نفوذ کر جاتا ہے جیسے شبنم کی نمی پھولوں کی پتیوں میں نفود کرتی ہے‘‘۔
بچوں کے حوالے سے حکیم صاحب کے کاموں پر اختصار سے بھی لکھنے کے لیے بہت وقت چاہیے۔ 1987 میں حکیم صاحب نے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے ایک بہت معیاری اسکول’’ ہمدرد پبلک اسکول‘‘ کے نام سے قائم کیا، اس اسکول کے معاملات کو وہ انتہائی اہمیت دیتے تھے اور ہفتے میں ایک دو بار صبح اسکول پہنچ کر بچوں کا استقبال کرتے تھے۔
ایک بار حکیم صاحب نے ملک کے صنعت کاروں اور اہل ثروت کو خطوط بھیجے کہ وہ اپنے ذاتی نوعمر ملازمین کو بھی تعلیم دلوائیں اور ان کو نہ صرف تعلیم کی ترغیب دیں بلکہ اس سلسلے میں ان کو سہولت بھی دیں۔ حکیم صاحب خود بھی اس پر عمل کرتے تھے۔
آخر میں شہید حکیم محمد سعید کی شخصیت اور کمالات کو سمجھنے کے لیے عرض ہے کہ انسان کی ذہنی توانائیاں لامحدود ہیں۔ ان سے کام لینے کے لیے ان توانائیوں کو مرتکز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پوری طرح یکسو اور مرتکز ہونے کے بعد ہی یہ توانائیاں بروئے کار آتی ہیں اور نتائج ظاہر کرتی ہیں اور غیرمعمولی کارنامے انجام پاتے ہیں۔ جس طرح سورج کی شعاعیں جب کسی شے پر راست پڑتی ہیں تو ان سے آگ برسنے لگی ہے، لیکن پھیلی ہوئی شعاعوں کی حرارت اور طاقت کم ہو جاتی ہے۔ انسان کی ذہنی توانائیاں یکسوئی کے ساتھ استعمال کرنے سے بڑھتی اور ثمرآور ہوتی ہیں۔ حکیم صاحب کو یہ ملکہ حاصل تھا کہ وہ اپنے بے شمار کاموں کے باوجود اپنے ذہن کو ایک وقت میں ایک نکتے پر مرتکز کرنے کی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی کامیابیوں میں یکسوئی کی اس صلاحیت کا بڑا دخل ہے۔