الطاف کے سہولت کار، آزاد کیوں؟

1040

احمد اعوان
کوئی کام اگر صحیح وقت اور طریقے سے نہ کیا جائے تو اس کی افادیت متاثر ہوجاتی ہے۔ آج بات ہوگی کہ الطاف پر برا وقت عوام کو قتل کرنے کے نتیجے میں آیا، یا سرکار کو برا کہنے پر؟ الطاف کا ظلم، شہریوں کے قتل عام پر بند کروایا گیا، یا اپنی بے عزتی برداشت نہ کرسکنے کے سبب اس کے ظالم دور کا خاتمہ کیا گیا؟ آج بات ہوگی کہ الطاف کے زوال کا اصل سبب کیا تھا؟
خبر آئی ہے کہ 11اکتوبر 2019ء نے لندن کی ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت نمبر 1 نے الطاف حسین کی ضمانت میں تیسری مرتبہ توسیع نہیں کی اور فرد جرم عائد کردی، اسے مشروط ضمانت دی گئی ہے جس کے تحت سوشل میڈیا استعمال کرنے‘ پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرنے اور عدالت کی اجازت کے بغیر نقل و حرکت پر پابندی لگادی گئی ہے۔ دکھ اور کرب کی بات یہ ہے کہ الطاف پر یہ فردِ جرم لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے کے الزام پر نہیں لگی بلکہ 22اگست 2016ء کو لندن سے نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام پر لگی ہے۔ الطاف پر آج بات کرنا کوئی بڑی بات نہیں، مگر ایک زمانے تک الطاف کے خلاف بولنا جہاد کے مترادف تھا۔ اس زمانے میں ایک اخبار نے شعیب خان کے قتل پر مرکزی خبر شائع کی کہ ’’اب کراچی میں صرف ایک ڈان ہے‘‘۔ تو اخبار بند کروا دیا گیا۔ صحافیوں کے قتل کا سلسلہ تو ولی خان بابر تک جاری رہا اور آخر کار اس مقدمے کا فیصلہ کیس کے گواہوں اور وکیل کے قتل کے بعد کندھ کورٹ منتقل کرکے کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ الطاف کیسے قائد تحریک الطاف حسین بھائی بنا؟ الطاف کے بچپن کے دوست نے ایک مرتبہ ہمیں بتایا کہ الطاف اپنی ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے گھر میں جھاڑو پونچھا تک کرتھا۔ سوال یہ ہے کہ اس کو اتنا طاقتور، بے رحم اور سفاک بنانے میں مدد فراہم کرنے والے اور اس کے سہولت کار کون تھے؟ جس شہر میں سڑک کنارے شربت کا ٹھیلہ سرکار کی مرضی کے بغیر نہ لگ سکے وہاں الطاف نے کیسے تیس برسوں تک حکومت کی؟ الطاف نے 22اگست 2016ء کو جو کچھ کہا تھا یہ الطاف نے پہلی مرتبہ تو نہیں کہا تھا۔ 5جولائی 1997ء کو الطاف کے حکم پر ایم ڈی، کے ای ایس سی شاہد حامد کو قتل کرنے والے صولت مرزا نے اپنی گرفتاری کے چند ماہ بعد ایک ویڈیو، ریکارڈ کروائی تھی جس میں صولت مرزا نے بتایا تھا کہ 1984ء میں الطاف نے اپنے گھر عزیز آباد میں ہمیں جمع کیا اور فکری نشست میں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگوائے۔
2005ء میں دورۂ بھارت کے موقع پر ہندوستان ٹائمز کی منعقدہ تقریب کے دوران الطاف نے کہا تقسیم برصغیر عظیم غلطی تھی، مزید کہا ’’میں انڈیا کی اسٹیبلشمنٹ‘ سرکار‘ اپوزیشن اور ہیومن رائٹس والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اگر اب ہمیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کبھی مہاجر ہونے کا طعنہ دیا تو خدا کے واسطے آپ ہمیں معاف کردینا اور اپنے ہاں پناہ دینا‘‘۔ 2005ء میں پاکستان کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف تھے۔ ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل اشفاق کیانی تھے۔ ڈی جی، آئی بی بریگیڈئر اعجاز شاہ (موجودہ وزیرداخلہ) تھے۔ تب الطاف کے خلاف کوئی ایف آئی آر کیوں نہ کٹی؟ محب وطن ادارے کس کے حکم پر غفلت برتتے رہے اور اس کے عوض ہمارے پیارے کراچی میں مرتے رہے۔ الطاف کی اس تقریر کے بعد نیو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے نے جنرل مشرف کے حکم پر الطاف کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا تھا۔ الطاف غدار، درست، مگر مشرف محب وطن؟ کراچی میں تیس برسوں میں لاکھوں لوگ شہید کیے گئے‘ فیصل ایدھی کے مطابق اس کے قبرستان میں 84400نامعلوم قبریں ہیں۔ باقی قبرستانوں کے کبھی اعداد و شمار جمع ہی نہیں کیے جاسکے۔ یہ لوگ کیا الطاف نے اکیلے مارے؟ کیا ان سب مرنے والوں کا قاتل اکیلا الطاف ہے؟ اس کام میں اس کے سہولت کاروں کا تعین نہ کیا جائے؟
الطاف نے امریکا اور پھر لندن جانے کے بعد کراچی میں کسی کو ہاتھ تک نہیں لگایا تو جن کے ذریعے الطاف یہ سب کرواتا تھا ان کو کیسے معافی دی جاسکتی ہے؟ صولت مرزانے اپنے ابتدائی ویڈیو بیان میں بتایا تھا کہ، ہمیں اسلحہ انیس قائم خانی دیتا تھا اور الطاف نے کہا تھا کہ انیس قائم خانی جو کہے گا وہ سمجھو میں کہہ رہا ہوں۔ اسی صولت مرزا نے اپنے آخری ویڈیو بیان میں بتایا کہ عامر خان‘ خالد مقبول صدیقی الطاف کے حکم پر قتل کرواتے تھے۔ انیس قائم خانی‘ عامر خان‘ خالد مقبول صدیقی‘ حماد صدیقی‘ مصطفی کمال آج آزاد ہیں اگر انہیں معافی مل سکتی ہے تو الطاف نے تو تیس سال میں کسی کو تھپڑ نہیں مارا، وہ انہی لوگوں کے ذریعے ماؤں کی گودیں اجاڑتا تھا۔ پھر کوئی کیسے ان کو معافی دے سکتا ہے؟ الطاف مجرم، تو یہ تمام لوگ مجرم کیوں نہیں؟ یہ آج اگر کسی کی بات مان رہے ہیں تو یہ اچھے بچے ہوگئے؟ مارے ہمارے پیارے گئے اور معافیاں کوئی دے رہا ہے؟ یہ کیسا اندھا انصاف ہورہا ہے؟ ایم کیو ایم بنائی کس نے تھی؟ کیا ہم یہ سوال نہ پوچھیں؟ 18مارچ 1984ء کو ایم کیو ایم بنی اس وقت صدرِ پاکستان جنرل ضیاء الحق تھے اور ایم کیو ایم بنانے میں جنرل حمید گل کا مرکزی کردار تھا۔ بنانے کا مقصد کراچی میں پیپلزپارٹی اور دینی جماعتوں کا زور توڑنا تھا، مگر ٹوٹتے ہم غریب عوام رہے۔ حمید گل صاحب کو ایم کیو ایم اپنے یومِ تاسیس میں مدعو کرتی تھی اور جنرل صاحب آتے تھے، تاریخ اس کی شاہد ہے۔
اگر جنرل ضیاء الحق اور حمید گل کا افغان جہاد میں کردار تھا تو ان حضرات کا کہیں اور بھی ہاتھ تھا۔ ہم ان کو انڈیا کے سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ بس ڈیوٹی کررہے تھے اس وقت قومی مفاد افغان جہاد میں تھا تو پوری ریاست نے اپنا بیانیہ افغان جہاد سے جوڑا۔ جب 11دسمبر 2001ء کے بعد قومی مفاد تبدیل ہوا تو ساری ریاست نے لمحہ بھر میں بیانیہ تبدیل کرلیا۔ جنرل باجوہ تو روس میں کھڑے ہوکر کہہ چکے ہیں کہ، ہم نے چالیس سال میں جو کیا اب وہ درست کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اس لیے ریاست کی نظر میں جتنی عزت ضیاء الحق‘ حمید گل کی ہے اتنی ہی پرویز مشرف کی ہے باقی ان کو انڈیا سے نفرت کتنی تھی، اس کا اندازہ یوں لگالیں کہ ضیاء الحق کے زمانے میں بھارت کا ویزہ انڈیا امبیسی کے باہر کھڑے ایجنٹ لگوادیا کرتے تھے اور اعجاز الحق کی شادی میں شتروگن سنہانے (بھارتی اداکار) ایک ہفتے سرکاری مہمان کے طور پر ایوان صدر میں نہ صرف قیام کیا بلکہ نام نہاد امیرالمومنین کی زوجہ محترمہ اور صاحبزادیوں کے ساتھ صبح ناشتہ تناول فرمایا۔ حمید گل صاحب سے 7مئی 2014ء کو ٹی وی پروگرام ’’مذاق رات‘‘ میں سوال پوچھا گیا جنرل صاحب آپ نے انڈیا کے خلاف جنگیں لڑی تو فلمیں تو نہیں دیکھتے ہوںگے۔ انہوں نے فرمایا، نہیں نہیں۔ مجھے وحیدہ رحمان‘ مدھو بالا‘ مادھوری ڈکشٹ بہت پسند ہیں۔ اپریل 2005ء کو مشرف نے انڈیا کا دورہ کیا تو منموہن سنگھ کو کہا کہ رانی مکھرجی کو بھی کھانے پر مدعو کرلیں۔ رانی مکھرجی حیران تھی کہ پاکستانی آرمی چیف اُسے جانتے ہیں۔ کس کس بات کا رونا روئیں؟
الطاف پر فردِ جرم عائد ہونے کی خوشی منائیں یا اب تک اس کے سہولت کاروں کی آزادی پر ماتم کریں؟ 12مئی 2004ء کو ضمنی انتخابات میں جماعت اسلامی کے 12کارکنان شہید کردیے گئے۔ 12مئی 2007ء کو کراچی میں 48افراد شہید کردیے گئے۔ ان افراد کو افتخار چودھری کے استقبال کے جرم میں شہید کیا گیا تھا۔ اسی مقدمے میں سندھ ہائی کورٹ نے 2011ء میں الطاف اور مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ کراچی میں سو‘ ڈیڑھ سو لوگوں کا مرنا روز کا معمول تھا۔ تیس‘ چالیس افراد کے مرنے کو کراچی میں بڑی بات ہی سمجھنا چھوڑ دیا گیا تھا۔ 11ستمبر 2012ء کو کراچی میں قیامت ٹوٹی جب ایم کیو ایم کے حماد صدیقی کے کہنے پر عبدالرحمن بھولا نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بلدیہ میں فیکٹری کو کیمیکل چھڑک کر آگ لگادی۔ اس آگ میں تین سو افراد شہید ہوئے‘ شہید ہونے والوں میں عورتیں‘ بچے‘ بوڑھے بھی شامل تھے۔ افسوس کی بات نہیں ہے کہ اس وقت بھی الطاف کا ہاتھ نہیں روکا گیا الطاف پر تو 1992ء کے بعد ایف آئی آر 16مارچ 2015ء کو دنیا ٹی وی کے پروگرام میں رینجرز کو دھمکیاں دینے کے الزام میں کاٹی گئی۔ کیا تین سو لوگوں کا زندہ جلادیا جانا درگزر کرنے، صرفِ نظر کرنے، نظر انداز کیے جانے کے لائق تھا؟ اس روز حکومت اور اس کے ادارے حرکت میں کیوں نہ آئے؟ عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو سے بڑھ کرکیا کام اہم اور ضروری ہوتا ہے؟ کوئی مقصد لوگوں کی زندگیوں سے بھی زیادہ قیمتی ہوسکتا ہے؟ لوگوں کی عزت سے زیادہ، اداروں کی عزت، تو قیمتی نہیں ہوتی؟ عوام رہیں گے تو سب رہیں گے، اگر عوام کی عزت نہ بچی تو کسی کی عزت کیسے بچے گی؟ جب تک الطاف کے ساتھی انجام تک نہیں پہنچیںگے جب تک وہ لوگ کٹہرے میں نہیں لائے جاتے جو الطاف کے سہولت کار تھے، چاہے وہ کتنے ہی مضبوط اور طاقتور کیوں نہ ہوں، تب تک پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔ اور انہی لوگوں کے لیے سلیم عاجز نے کہا تھا کہ؎
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
وہ تمام لوگ جو الطاف کی بدمعاشی، سفاکی، فرعونیت کے زمانے میں سرکاری اداروں کے سربراہ تھے ان کا یہ قومی فریضہ تھا کہ وہ عوام کی جان و مال‘ عزت و آبرو کا تحفظ یقینی بناتے اور اس کام کی وہ ہر ماہ، باقاعدگی سے تنخواہ بھی لیتے تھے۔ اس لیے یہی لوگ الطاف کے اصل سہولت کار تھے اور یہ سب اب تک آزاد ہیں۔