خان لیاقت علی خان؛ سچے راہ نما عظیم انسان

802

عبداللطیف ابوشامل

وہ اتنا صاحب ثروت تھا، جس کا نام خان سے شروع ہوکر خان پر ختم ہوتا تھا اور یہی نہیں، اس کے نام ساتھ نواب زادہ لکھا جاتا تھا کہ وہ تھا بھی نواب زادہ اور نواب رستم علی خان کا چہیتا فرزند۔ لیکن پھر اس کے دل و دماغ میں ایک ایسا سودا سمایا جس کے لیے اس نے اپنا سب کچھ تج دیا۔
ہاں اپنے خواب کی تعبیر کے لیے وہ نواب زادہ اس مقام پر بھی پہنچا جہاں وہ اپنی ذات کی نفی کرچکا تھا۔ کراچی میں حمید برادرز ہی اُن کا درزی تھا وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں قیام پاکستان کے ساڑھے چار برس میں مشکل سے تین یا چار سُوٹ سلو ائے تھے ، وہ اپنے پُرانے سوٹ ہی درست کرواتے رہتے تھے ۔ 1940ء کے بعد اْن کی جسمانی ساخت بدل گئی تھی اور پہلے کے کپڑے تنگ ہو گئے تھے لیکن وہ اِن تنگ کپڑوں کو بھی ادھیڑ کر بڑے کراتے اور پہنتے رہے ۔ گھر پر وہ نہایت سادہ کپڑے پہنے رہتے تھے ۔ ان کے درزی کے بہ قول میں نے ایک مرتبہ اُن کو ایک قمیص پہنے دیکھا جس کی آستین میں کئی پیوند لگے تھے ۔ دراصل آستین کا کپڑا نکال کر اْس کا کالر بنا یا گیا تھا۔’’
یوسف ہارون کے مطابق جب وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ بنے تو اس نواب زادے نے انہیں جو ہدایت نامہ دیا وہ کسی صوفی باصفا کی نصیحت معلوم ہوتا اور آج بھی قابل غور ہے : ‘‘تمہیں اپنے زمانۂ اقتدار میں بہت سے ایسے لوگوں سے سابقہ پڑے گا جو تم سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ۔ اس موقع پر تم انصاف کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دینا اور ملک کا نقصان کرکے کسی کا ذاتی فائدہ ہرگز نہ کرنا۔ ہاں اگر انصاف کا خون کیے بغیر تم کسی کا فائدہ کرسکتے ہو تو مضائقہ نہیں لیکن اپنے ضمیر اور خدا کے رُو بہ رُو سچے رہنا، تمہیں اختیارات ملے ہیں تو خوفِ خدا کو ہمیشہ اپنا راہ بر بنانا اور قانون کی راہ میں روڑے مت اٹکانا۔’’
ہم تذکرۂ خیر کر رہے ہیں اس عظیم انسان کا جس کا نام نواب زادہ خان لیاقت علی خان تھا، جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے ۔ آپ ہندوستان کے علاقے کرنال میں پیدا ہوئے اور اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1922ء میں انگلینڈ بار میں شامل ہوئے ۔ 1923ء میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے ۔ 1936ء میں مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے ۔
نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب رستم علی خان کے دوسرے بیٹے تھے ۔ یکم اکتوبر 1896ء کو پیدا ہوئے ۔ آ پ کی والدہ محمودہ بیگم نے گھر پر ان کے لیے قرآن اور احادیث کی تعلیم کا انتظام کیا۔ 1918ء میں انہوں نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ 1918ء میں جہانگیر بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد لیاقت علی خان برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ برطانیہ سے واپسی کے بعد انہوں نے برطانوی تسلط سے آزادی کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔1924ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا، اس اجلاس کا مقصد مسلم لیگ کو دوبارہ منظم کرنا تھا اس اجلاس میں خان لیاقت علی خان بھی شریک تھے ۔
1926ء میں لیاقت علی خان اُتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔1932ء میں انہوں نے بیگم رعنا خان لیاقت علی خان سے عقد ثانی کیا جو ایک ماہرتعلیم اور معیشت داں تھیں۔ تقسیم ہند کے بعد خان لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم منتخب ہوئے اور 16اکتوبر 1951 اپنی شہادت تک وزیر اعظم تھے ، جو 16اکتوبر 1951ء کی شام کمپنی باغ راول پنڈی میں جلسہ عام کے بعد شہید کردیے گئے ۔ شہید لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے دیگر کئی پراسرار واقعات میں نمایاں ہے ۔
خان لیاقت علی خان جب شہید ہو ئے تو ان کی جیب میں سے ایک سگریٹ کیس نکلا اور بنک میں چند روپوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا۔ قائد اعظم، خان لیاقت علی خان پراندھا اعتماد کرتے تھے ۔ 6دسمبر1943ء کو کراچی میں مسلم لیگ کی کونسل میٹنگ میں نواب زادہ خان لیاقت علی خان کو دو بارہ جنرل سیکریٹری چنا گیا اور قائد اعظم نے انہیں اپنا دستِ راست کہہ کر پکارا۔
خان لیاقت علی خان کی کفایت شعاری کے حوالے سے یوسف ہارون جو اس وقت سندھ کے وزیر اعلی تھے ، نے لکھا ہے :‘‘خان لیاقت علی خان کی اپنی ماہانہ تن خواہ میں گزارہ مشکل سے ہوتا تھا۔ انھوں نے خود ہی اپنی تن خواہ بہت کم مقرر کروائی تھی۔ قرض کے بار سے بچنے کے لیے وہ اپنے بچوں کو معمولی اسکول میں تعلیم دلواتے تھے ۔ اس میں شک نہیں کہ وہ خوش پوش انسان تھے لیکن اُن کے پاس قیمتی کپڑے بہت کم تھے ۔
خان لیاقت علی خان نے ایک بار کہا تھا:‘‘میرے پاس نہ دولت ہے نہ جائیداد، میں اسی میں خوش ہوں کیوں کہ یہی چیزیں انسان کے ایمان میں خلل ڈالتی ہیں۔ صرف ایک جان میرے پاس ہے اور وہ بھی چار برس سے پاکستان کے لیے وقف ہے ۔ اب میں آپ کو اس محبت اور عقیدت کے بدلے کیا دے سکتا ہوں جو آ پ مجھ سے کرتے ہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر پاکستان کی حفاظت کے لیے پاکستان کی بقاء کے لیے قوم کو خون بہانا پڑتا تو لیاقت کا خون بھی اس میں شامل ہوگا۔’’
اور پھر آ خر کا ر 16اکتوبر 1951ء کو انہوں نے قوم سے کیا گیا وعدہ ایفا کردیا۔ آخری وقت میں اُن کی زبان پر یہ الفاظ تھے : ‘‘ خدا پاکستان کی حفاظت کرے ۔’’
کیا ملک خداداد پاکستان جو اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتا ہے ۔ اپنے وجود کے دن سے ہی خطرات کی زد میں ہے ؟ اس ملک خداداد میں سازشی عناصر کیا اتنے طاقت ور ہیں کہ اپنی ہر سازش کے نتائج حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں؟ یہاں عوام کی رائے پر جبر کی حکم رانی رہی ہے اور عوامی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی؟ کیا اس کا نظام کسی غیرمرئی قوت کے ہاتھ میں رہا ہے ؟ کیا اس ملک کے شہریوں کو وہ حقوق جن کی ضمانت آئین پاکستان دیتا ہے ، ہمیشہ سے ہی سلب کیے جاتے رہے ہیں؟ اور پھر ان حالات میں ہمارا مستقبل ہے کیا۔۔۔۔۔؟ ایسے ہی اور ایسے ہی کئی سوالات اور خدشات ہمیں آج بھی گھیرے ہوئے ہیں۔
پاکستان کو ایک نیا پاکستان بنانے کا عزم لیے عمران خان پر لازم ہے کہ وہ خان لیاقت علی خان کی زندگی کو سامنے رکھیں تو بہ طور وزیراعظم ضرور کام یاب ہوسکتے ہیں۔ تحمل، بردباری اور قوت برداشت ہی سیاست کا دوسرا نام ہے ۔ اختلافِ رائے ضرور ہو لیکن ذاتی رنجشیں، ذاتی مفاد اور ہوسِ زر کو چھوڑ دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کام یاب نہ ہوں۔ پاکستان ہے تو سیاست داں، حکم راں اور فوجی جرنیل و افسران سب ہوں گے ، وگرنہ خاکم بہ دہن، خدانخواستہ اگر یہ عظیم پاکستان جو مزید کسی سانحے کا قطعاً متحمل نہیں ہوسکتا، کسی اور حادثے کا شکار ہوگیا تو ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔