لیاقت علی خان کا اصل قاتل کون؟

2181

وجاہت مسعود

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے پراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے ۔ لیاقت علی خان کا قتل وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کی قیادت سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ سے نکل کر سرکاری اہل کاروں اور ان کے کاسہ لیس ساست دانوں کے ہاتھ میں پہنچی۔ قتل کے محرکات، سازشیوں کے نام اور واقعات کا تانا بانا شکوک و شبہات کی گہری دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔
لیاقت علی ابتدا ہی سے محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے ۔ ہیکٹر بولائتھو کے مطابق قائد اعظم کو 1933 میں انگلستان سے واپس آ کر مسلم ہندوستان کی سیاست میں دوبارہ شریک ہونے پر لیاقت علی خان نے ہی آمادہ کیا تھا۔ 1940 کی لاہور قرارداد کے بعد سے لیاقت علی خان، مسلم لیگ میں قائداعظم کے دست راست سمجھے جاتے تھے ۔
شخصی زندگی میں لیاقت علی روشن خیال اور مجلسی مزاج رکھتے تھے ۔ مگر عوامی سطح پر ان کی سیاست مذہبی حوالوں سے بھرپور ہوتی تھی۔ وہ ہندوستان کی پہلی عبوری حکومت میں وزیر خزانہ بنے ۔ تقسیم ہند کے بعد انہیں پاکستان کا وزیرِ اعظم منتخب کیا گیا۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستانی سیاست میں مقامی اور غیر مقامی عناصر کی کش مکش شروع ہوئی۔ جناح اور لیاقت علی سمیت مسلم لیگ کے بیشتر مرکزی رہنما مسلم اقلیتی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ پاکستان کا حصہ بننے والے علاقوں میں موجود سیاسی رہنماؤ ں کا قد کاٹھ زیادہ بلند نہیں تھا لیکن ان کے مفادات کی جڑیں گہری اور عزائم بلند تھے ۔ مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کو بن بلائے مہمان سمجھا جا رہا تھا۔ دوسری طرف مسلم لیگ کے غیرعوامی مزاج اور کمزور جمہوری رویوں کے باعث سرکاری اہل کار خود کو اقتدار کا حقیقی سرچشمہ سمجھنے لگے تھے ۔
قائد اعظم کے بعد لیاقت علی خان بہت تنہا رہ گئے تھے ۔ ان کے واحد با اعتماد ساتھی عبدالرب نشتر تھے جو اپنی وضع داری کے باعث اقتدار کی کھینچا تانی میں زیادہ مو ثر نہیں تھے ۔ لیاقت علی عوام میں بے حد مقبول تھے لیکن ان کے اور اہم سیاسی رہنماؤں نیز حکومتی اہلکاروں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے تھے ۔
پنجاب میں نواب ممدوٹ اور ممتاز دولتانہ کشمکش میں لیاقت علی دولتانہ کے حامی تھے ۔ مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری کے عہدے کے لیے انتخاب میں لیاقت علی نے میاں عبدالباری کے مقابلے میں یوسف خٹک کی حمایت کی تھی۔ چنانچہ پنجاب مسلم لیگ ان سے خفا تھی۔ نواب مشتاق گورمانی کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، مشتاق گورمانی، جلیبی کی طرح سیدھاہے ۔ یوسف خٹک کے مطابق لیاقت علی وزیر اعلی سرحد قیوم خان سے سخت نالاں تھے ۔ لیاقت علی نے بنگال کے مقبول رہنما حسین سہروردی کے بارے میں اسمبلی میں سخت کلمات ادا کیے تھے ۔ سندھی قیادت کے بارے میں ان کے درشت کلمات زبان زد عام تھے ۔ لیاقت علی خاں نے جنرل ایوب کو بتایا تھا کہ وہ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کو پسند نہیں کرتے ۔ روزنامہ نوائے وقت، لیاقت علی خان اور ان کی بیگم کے بارے میں مسلسل اشتعال انگیز اداریے لکھ رہا تھا۔ قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح بھی پردے کی پابند نہیں تھیں مگر قائد اعظم کی سیاسی قامت سے خائف لوگوںنے بیگم لیاقت علی کو نشانہ بنا رکھا تھا۔
16 اکتوبر 1951 کی اس شام لیاقت علی خان پنڈی کے شہریوں سے خطاب کرنے کھڑے ہوئے تو وہ سیاسی طور پر تنہا ہو چکے تھے ۔ سازش کا خاکہ مکمل ہو چکا تھا۔
وسط اکتوبر 1951 کی اس شام کمپنی باغ راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں لیاقت علی خاں کے قتل کو ایک شخص کا انفرادی جرم قرار دینا مشکل ہے ۔ وزیر اعظم پر قاتلانہ حملے کے فورا بعد کمپنی باغ میں ہونے والے واقعات پر ان گنت سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔
وزیر اعظم کے جلسے میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلی اور آئی جی پولیس تو موجود تھے مگر پنجاب کے وزیر اعلی ممتاز دولتانہ، آئی جی پولیس قربان علی خاں اور ڈی آئی جی، سی آئی ڈی انور علی غائب تھے ۔ درحقیقت جلسہ گاہ میں فرائضِ منصبی پر مامور پولیس کا اعلی ترین عہدیدار راولپنڈی کا ایس پی نجف خاں تھا۔ پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل یوسف خٹک پنڈی میں تھے مگر جلسہ گاہ میں موجود نہیں تھے ۔
گولی کی آواز سنتے ہی نجف خاں نے پشتو میں چلا کر کہا، اسے مارو نجف خاں نے پنڈی (پنجاب) کے جلسے میں پنجابی کی بجائے پشتو کیوں استعمال کی؟ کیا اسے معلوم تھا کہ قاتل افغانی ہے ؟ اس کے حکم پر سید اکبر کو ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے والا تھا۔ کیا پولیس کا ضلعی سربراہ اضطراری حالت میں یاد رکھ سکتا ہے کہ اس کے درجنوں ماتحت تھانیدار کون کون سی زبان بولتے ہیں؟ کیا تجربہ کار پولیس افسر نجف خاں کو معلوم نہیں تھا کہ وزیر اعظم پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار کرنا ضروری ہے ؟
جب انسپکٹر شاہ محمد نے سید اکبر پر ایک دو نہیں، پانچ گولیاں چلائیں، اس وقت سفید پوش انسپکٹر ابرار احمد نے حاضرینِ جلسہ سے مل کر قاتل سے پستول چھین لیا تھا اور اسے قابو کر رکھا تھا۔ کیا انسپکٹر شاہ محمد قاتل پر قابو پانے کی بجائے اسے ختم کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا؟
لیاقت علی کے صاحبزادے اکبر لیاقت علی کا کہنا ہے کہ سید اکبر کو تو خواہ مخواہ نشانہ بنایا گیا، اصل قاتل کوئی اور تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لیاقت علی خاں کو گولی سامنے سے نہیں، عقب سے ماری گئی تھی
جلسہ گاہ میں موجود مسلم لیگ گارڈ بھالوں سے سید اکبر پر ٹوٹ پڑے ۔ اس کے جسم پر بھالوں کے درجنوں زخم تھے ۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم کے آس پاس بہت سے مسلح افراد موجود تھے جس سے ناقص حفاظتی انتظامات کی نشاندہی ہوتی ہے ۔
نجف خاں کے حکم پر حفاظتی گارڈ نے ہوا میں فائرنگ شروع کر دی جس سے جلسہ گاہ میں افراتفری پھیل گئی اور زخمی وزیراعظم کو طبی امداد پہنچانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس ہوائی فائرنگ کا مقصد واضح نہیں ہو سکا۔
ایس پی نجف خاں نے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ اس نے اپنے ماتحتوں کو ہوائی فائرنگ کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ ایس پی نے اپنے ماتحتوں سے جواب طلبی کر لی۔ انکوائری کمیشن کے سامنے اس ضمن میں پیش کیا جانے والا حکم 29 اکتوبر کا تھا۔ تاہم عدالت نے رائے دی کہ ریکارڈ میں تحریف کی گئی تھی۔ اصل تاریخ 20 نومبر کو بدل کر 29 اکتوبر بنایا گیا مگر اس کے نیچے اصل تاریخ 20 نومبر صاف دکھائی دیتی تھی۔ ظاہر ہے کہ نجف خاں نے فائرنگ کا حکم دینے کے الزام کی تردید کا فیصلہ 20 نومبر کو کیا۔ سرکاری کاغذات میں ردوبدل ایس پی نجف خاں کے سازش میں ملوث ہونے یا کم از کم پیشہ وارانہ بددیانتی کا پختہ ثبوت تھا۔ انکوائری کمیشن کے مطابق نجف خاں نے ایک ذمہ دار پولیس افسر کے طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی تھی۔ اس عدالتی رائے کی روشنی میں نجف خان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوئی لیکن اسے باعزت بحال کر دیا گیا۔
وزیر اعظم کے جلسے میں ممکنہ ہنگامی صورت حال کے لیے طبی امداد کا کوئی انتظام نہیں تھا حتٰی کہ کسی زخمی کو اسپتال لے جانے کے لیے ایمبولنس تک موجود نہیں تھی۔ چاروں طرف اندھا دھند گولیاں چل رہی تھیں اور چند افراد اس بھگڈر میں سید اکبر کو ختم کرنے میں مصروف تھے ۔ کچھ لوگ ایک وزنی آرائشی گملا اٹھا لائے اور اسے سید اکبر پر دے مارا جس سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ اس افراتفری میں سید اکبر پر حملہ کرنے والوں کا اطمینان حیران کن تھا۔ سید اکبر نے زرد رنگ کی شلوار قمیص پر اچکن پہن رکھی تھی۔ یہ خاکسار تحریک کی وردی نہیں تھی۔ واردات کے فورا بعد یہ افواہ کیسے پھیلی کہ قاتل خاکسار تھا بلکہ صوبہ بھر میں خاکساروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہو گئیں۔ کیا یہ عوام کے اشتعال کو کسی خاص سمت موڑنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی؟
خواجہ ناظم الدین نتھیا گلی میں تھے جب کہ غلام محمد پنڈی ہی میں تھے ۔ دونوں نے جلسے میں شرکت کی زحمت نہیں کی۔ البتہ وزیر اعظم کے قتل کی خبر پاتے ہی یہ اصحاب صلاح مشورے کے لیے جمع ہو گئے ۔ مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں اس وقت پہنچی جب نیم مردہ وزیراعظم کو جلسہ گاہ سے باہر لایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم کی موت کی تصدیق ہوتے ہی گورمانی صاحب ان کے جسد خاکی کو اسپتال چھوڑ کر اپنے گھر چلے گئے اور اگلے روز کراچی میں تدفین تک منظرِ عام پر نہیں آئے ۔
اس سازش کے ڈانڈوں پر غور و فکر کرنے والوں نے تین اہم کرداروں کی راولپنڈی سے بیک وقت دوری کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کراچی میں ٹینس کھیل رہے تھے ۔ فوج کے سربراہ ایوب خان لندن کے اسپتال میں تھے اور سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ ایک خاص مشن پر ہالینڈ میں بیٹھے اگلے احکامات کے منتظر تھے ۔
1951 کے وسطی مہینوں سے اخبارات مرکزی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کی خبریں شائع کر رہے تھے ۔ وزیر خزانہ غلام محمد شدید فالج کے باعث اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل نہیں رہے تھے ۔ انھوں نے اپنے داماد حسین ملک کے ذریعے استعفیٰ دینے سے پہلے چند دن کی مہلت مانگی تھی۔ اکتوبر 1951 میں وہ راولپنڈی میں اپنے سمدھی ڈی ایم ملک کے گھر پنشن سے قبل رخصت کے دن گزار رہے تھے ۔ لیاقت علی کے پولیٹکل سیکریٹری نواب صدیق علی خان کہتے ہیں کہ وہ خود غلام محمد کو کراچی چھاؤنی سٹیشن پر خیبر میل میں سوار کر کے آئے تھے ۔
خواجہ ناظم الدین کے چھوٹے بھائی وزیر داخلہ شہاب الدین کو مصر میں سفیر بنائے جانے کا سرکاری اعلان کیا جا چکا تھا۔ وزیرِ امورِ کشمیر نواب مشتاق احمد گورمانی کو بھی علیحدہ کیا جا رہا تھا۔ غلام محمد، نواب مشتاق گورمانی اور خواجہ ناظم الدین اس روز راولپنڈی میں ہی موجود تھے ۔ مگر سوائے نواب مشتاق گورمانی کے دوسروں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس جلسہ میں شرکت نہیں کی۔
نواب زادہ لیاقت علی نے پنجاب کے گورنر عبدالرب نشتر کو وزارت خزانہ سونپنے کے علاوہ نائب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا تھا۔ گورنر پنجاب کے لیے نواب اسماعیل کا انتخاب ہو چکا تھا۔ لیاقت علی کے قتل کے بعد نشتر اور نواب اسماعیل ہی ایسے کردار تھے جنھیں اقتدار کی بندر بانٹ سے الگ رکھا گیا۔
لیاقت علی خاں کو نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی میں ہسپتال پہنچایا گیا۔ وزیر اعظم کے انتقال کے بعد مشتاق گورمانی خاموشی سے کراچی چلے گئے ۔ غلام محمد اور خواجہ ناظم الدین نے ہسپتال پہنچنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ وزیرِ اعظم کی نعش ہسپتال میں پڑی تھی اور کابینہ کے ارکان کرسیاں بانٹنے میں ا لجھے ہوئے تھے ۔
غلام محمد، مشتاق گورمانی کی آشیرباد سے وزیر اعظم بننا چاہتا تھا لیکن خواجہ ناظم الدین خود اپنے لیے وزیر اعظم کے سوا کسی عہدے پر رضامند نہ ہوئے ۔ چنانچہ چلنے پھرنے میں مفلوج اور بات چیت سے معذور ملک غلام محمد گورنر جنرل بن گیا۔ وزیر داخلہ خواجہ شہاب الدین مصر میں سفیر کی بجائے گورنر سرحد بن بیٹھا۔ کابینہ سے فارغ کیا جانے والا گورمانی وزیر برائے امور کشمیر سے وفاقی وزیر داخلہ بن گیا۔ چوہدری محمد علی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر وزیر خزانہ بن گئے ۔ آئی جی (پنجاب) قربان علی خاں، ایجنٹ ٹو دی گورنر جنرل، بلوچستان یعنی عملی طور پر گورنر بن گئے ۔ میاں انور علی ڈی آئی جی پنجاب، آئی جی پنجاب بن گیا۔
فوج کے سربراہ ایوب خان لندن سے واپسی پر خواجہ ناظم الدین، غلام محمد، چودھری محمد علی اور مشتاق گورمانی سے ملاقاتوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان میں کسی نے لیاقت علی خان کی موت پر افسوس تو کجا، ان کا نام تک نہیں لیا۔
اقتدار کے نئے خدوخال میں سیکرٹری دفاع سکندر مرزا، فوج کے سربراہ ایوب خان، وزیر خارجہ ظفر اللہ خان، سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ اور چودھری محمد علی آنکھ، ناک اور کان تھے ۔ پاکستان کا اقتدار سیاسی قیادت سے فوج اور نوکر شاہی کو منتقل ہو چکا تھا۔
غلام نبی پٹھان( تب جائنٹ سیکرٹری مسلم لیگ) کے مطابق لیاقت علی کے قتل کی نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ تفتیش کی گئی۔ چالان پیش کیا گیا اور نہ مقدمہ چلایا گیا۔
جسٹس منیر اور اختر حسین پر مشتمل ایک جوڈیشل انکوائری منعقد ہوئی مگر اس انکوائری کا مقصد لیاقت علی کے قاتلوں کا تعین کرنے کی بجائے قتل سے متعلقہ انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا۔ بیگم لیاقت علی کے مطابق کمیشن کا تقرر حکومت کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی تھی۔ اس کے نتیجے میں پنجاب اور سرحد کے پولیس افسر قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کی بجائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہو گئے ۔
انکوائری کمیشن کے نتائج نہایت مبہم اور مضحکہ خیز حد تک بے معنی تھے ۔ مثال کے طور پر :
الف) ہم بیان کردہ واقعات کی بنا پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے ۔ معاملہ زیرِ تفتیش ہے ۔ تحقیقات کرنے والے افسر کئی نظریات پر غور و فکر کر رہے ہیں۔
ب) اس ضمن میں تین سازشوں کا سراغ ملا ہے جن میں سے دو کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور تیسری کے متعلق مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان خط و کتابت ہو رہی ہے ۔ ہم نے ان سازشوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے کیونکہ ان کا انکشاف مفاد عامہ میں نہیں ہے ۔
ج) سید اکبر کا کسی سازش سے تعلق معلوم نہیں ہو سکا۔ بہرحال ایک قابل پولیس افسر مصروفِ تفتیش ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ ایک یا دو سازشوں سے سید اکبر کا تعلق نکل آئے گا۔
د) اگر سید اکبر زندہ مل جاتا تو ہمیں یقین تھا کہ ہم ایسے بھیانک جرم کے سازشیوں اس کا اتا پتا معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ۔
سید اکبر کی موت کے متعلق پولیس رپورٹ میں سب انسپکٹر محمد شاہ کی فائرنگ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس چشم پوشی کا مقصد پولیس کی غفلت یا ملی بھگت پر پردہ ڈالنا تھا۔
سید اکبر پاکستانی شہری نہیں، بلکہ افغان تھا۔ 1944 میں برطانوی حکومت کی ایما پر افغانستان میں سیاسی گڑبڑ کی ناکام کوشش کے بعد اس کا خاندان صوبہ سرحد میں آباد ہو گیا تھا۔ اسے اور اس کے بھائی مزدک خان کو برطانوی حکومت سے وظیفہ ملتا تھا، جو پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا۔ کیا سید اکبر حکومت پاکستان کا تنخواہ دار خفیہ کارندہ تھا؟ اس نے پنڈی کے ہوٹل میں اپنا پیشہ سی آئی ڈی پنشنر لکھوایا تھا۔ صوبہ سرحد میں ایسے خفیہ معاملات کے ضمن میں سکندر مرزا کا بہت شہرہ تھا جو قبائلی علاقوں میں پولیٹکل ایجنٹ رہنے کے علاوہ پشاور کے ڈپٹی کمشنر بھی رہے تھے اور قیام پاکستان کے بعد سیکریٹری دفاع کے طاقتور عہدے تک پہنچ چکے تھے ۔
سید اکبر کا ذاتی کردار بیان کرنے کے لیے تین اصطلاحات سے مدد لی جا سکتی ہے ۔ یعنی سیاسی مذہبیت، جنسی اضطراب اور ضعیف العقیدہ مذہبی جنون۔ ایسا غیر متوازن شخص کسی سازش میں بہترین آلہ کار ثابت ہو سکتا ہے ۔ لیاقت علی خان قتل کے بارے میں سرکاری نقطہ نظر یہی تھا کہ یہ مذہبی دیوانے اور ذہنی مریض سید اکبر کا انفرادی اقدام تھا جس میں کسی سازش کو دخل نہیں تھا۔
روزمرہ زندگی میں سید اکبر مذہبی آدمی تھا۔ پابندی سے نماز پڑھتا اور زکٰوۃ ادا کرتا تھا۔ اس نے شراب اور جوئے کے خلاف ایک کتاب کی کئی جلدیں خرید کر مفت تقسیم کی تھیں۔ سید اکبر قائد اعظم سے شدید عقیدت رکھتا تھا حالانکہ وہ بھی لیاقت علی خان کی طرح پردے کے قائل نہیں تھے ۔ سید اکبر ہر وقت کشمیر میں جہاد اور بھارت پر حملے کے خواب دیکھتا رہتا تھا۔ اس نے اپنے گھر میں الٹے سیدھے جنگی نقشے لٹکا رکھے تھے ۔ وہ ایبٹ آباد کے مولویوں سے تقاضا کیا کرتا تھا کہ وہ عوام پر جہاد کی اہمیت واضح کریں۔ 14 اکتوبر کو ایبٹ آباد سے راولپنڈی جاتے ہوئے سید اکبر نے وہی لباس پہن رکھا تھا جو اس نے جہاد میں شریک ہونے کے لیے تیار کرایا تھا۔
اس کے مکان کی تلاشی میں روزنامہ تعمیر اور نوائے وقت کے متعدد تراشے ملے جن میں بیگم لیاقت علی خان کے خلاف رسوا کن اداریے تحریر تھے ۔ ان دونوں اخبارات میں وزیر اعظم اور ان کی بیوی کے خلاف گھٹیا مہم چلائی جا رہی تھی جس میں سید اکبر کو گہری دلچسپی تھی۔
دوسری طرف سید اکبر کے بھائی مرزک کے مطابق سید اکبر خود پردہ ترک کر چکا تھا۔ وہ کبھی کبھی اپنی بیوی اور بیٹے کو سینما دکھانے لے جایا کرتا تھا۔ اس نے 16 اپریل 49 کو لاہور سے دو گھڑیاں خریدیں، جن میں سے ایک اس کی داشتہ رخ عافیہ کے لیے تھی۔ اس نے اپنے لڑکے دلاور خاں کو ایبٹ آباد میں ماڈرن یوروپین سکول میں تعلیم کے لیے داخل کرایا تھا۔
مرنے کے بعد سید اکبر کی جیب سے 2041 روپے برامد ہوئے ۔ 450 روپیہ ماہانہ سرکاری وظیفہ پانے والے قاتل کے گھر سے 7650 روپے کے نوٹ اور منی لال چمن لال اینڈ کمپنی بمبئی کی تیار کردہ نقلی سونے کی 38 اینٹیں ملیں۔
سید اکبر پر اسرار طور پر کچھ آدمیوں سے ملتا جلتا تھا۔ 14 اکتوبر کو پنڈی پہنچ کر سید اکبر نے چند سوالات لکھ کر کسی سے استخارے کی درخواست کی تھی۔ قتل سے ایک روز قبل اسے تحریری جواب ملا جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا تھا کہ بہشت میں حوریں تمہاری منتظر ہیں۔ تم ہماری خوشنودی پاؤ گے ۔
ایبٹ آباد میں سی آئی ڈی کے اہل کار 3 سال سے سید اکبر کی نگرانی کر رہے تھے ۔ 14 اکتوبر کو سی آئی ڈی راولپنڈی کو پیغام ملا کہ سید اکبر کی معمولی نگرانی کی جائے ۔ وزیر اعظم کی آمد کے موقع پر ایسے مشکوک کردار کے بارے میں ان احکامات کا واضح مطلب تھا کہ کچھ لوگ سید اکبر کی پشت پناہی کر رہے تھے ۔
انکوئری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، استخارے کا کاغذ دیکھنے اور واقعات پرکھنے سے معلوم ہوا کہ سید اکبر دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی ہوشیار شخص یا گروہ کا آلہ کار بن گیا تھا۔ یہ ماننا مشکل ہے کہ لیاقت علی سید اکبر کے مذہبی جنون کا شکار ہو گئے اور یہ کہ سید اکبر کو خدا نے وزیر اعظم کو قتل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سید اکبر نے ہزاروں کے مجمعے میں لیاقت علی پر گولی چلائی۔ اس کی گرفتاری سے ساری سازش کا تانا بانا سامنے آ جاتا۔ قاتل کے اردگرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر کے اس کا پستول چھین لیا تھا لیکن اسے پولیس نے موقع ہی پر مار دیا۔ دنیا بھر میں سیاسی قتل چھپانے کا یہ معروف طریقہ ہے کہ کسی شخص کو لالچ اور ترغیب کی مدد سے قتل پر آمادہ کیا جائے اور پھر جائے واردات کی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قاتل کو ختم کر دیا جائے تا کہ اصل سازش کا سراغ نہ مل سکے ۔
وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین نے اس قتل کی تفتیش انسپکٹر جنرل پولیس اعتزاز الدین کے سپرد کی۔ اعتزاز الدین نے بیگم لیاقت علی کو بتایا تھا کہ وہ اصل مجرموں کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ 26 اگست 1952 کو وہ لیاقت علی کیس کی تحقیقات کے لیے پاکستان ائیر فورس کے طیارے میں پشاور جا رہے تھے کہ جہلم کے قریب جہاز کو آگ لگ گئی۔ اعتزاز الدین سمیت تمام مسافر ہلاک ہو گئے ۔ لیاقت علی خاں کے قتل کے مقدمہ کے متعلق اہم کاغذات نذر آتش ہو گئے ۔
پاکستانی سیاست میں طیارے کی اہمیت
پاکستان کے سابق کمپٹرولر جنرل مشتاق احمد وجدی کے مطابق، اعتزاز الدین سے جب بھی بات ہوئی تو صرف اتنا کہا کہ میاں، موت سر پر کھیل رہی ہے ۔ آخر دوران سفر ہوائی جہاز کے حادثے کا شکار ہو گئے ۔
لیاقت علی خاں کے قاتل سید اکبر کو جائے واردات پر سرکاری پستول سے ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ اچانک بہت مالدار ہو گیا۔ اس نے پولیس کی ملازمت سے برطرف ہونے کے بعد لائل پور میں کپڑے کا کارخانہ لگا لیا۔ کچھ عرصے بعد ایک روز محمد شاہ کو نامعلوم افراد نے ضلع گجرات کے گاؤں مدینہ میں گولی مار کر قتل کر دیا۔ انسپکٹر محمد شاہ کے قتل کی خبر میں سید اکبر پر گولی چلانے کا تناظر بیان کرنے پر اعلیٰ سرکاری افسروں نے ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کو دھمکیاں دیں۔
غلام نبی پٹھان نے مغربی پاکستان کے وزیر کی حیثیت میں چیف سیکرٹری سید فدا حسن کو فون کیا کہ آپ لیاقت علی قتل کیس کی فائل میرے پاس بھیج دیں۔ فدا حسین نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ غلام نبی پٹھان کے اصرار پر جب انہیں فائل بھیجی گئی تو اس میں کوئی کاغذ نہیں تھا۔ فدا حسن کے مطابق غلام محمد کے زمانے میں مشتاق گورمانی (گورنر مغربی پاکستان )نے یہ فائل منگوائی تھی۔ واپس آئی تو خالی تھی۔
فروری 1958 میں ازالہ حیثیت عرفی کا مشہور مقدمہ گورمانی بنام زیڈ اے سلہری لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا، ایک نکتے کی تصدیق کے لیے عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو حکم دیا کہ لیاقت علی کے قتل کے متعلق پولیس کی تفتیشی فائل عدالت کو مہیا کی جائے ۔ 8 مارچ 1958 کو سی آئی ڈی نے عدالت کو مطلع کیا کہ تلاش کے باوجود اس فائل کا کوئی پتہ نہیں چل سکا لہٰذا حکومت اسے پیش کرنے سے معذور ہے ۔
سولہ اکتوبر 1951 کی شام ریڈیو پاکستان نے کمپنی باغ راولپنڈی سے وزیر اعظم لیاقت علی کی تقریر براہِ راست نشر کرنے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ریڈیو کے نشریاتی آلات اسٹیج پر ایک میز پر نصب تھے ۔ وزیرِ اعظم کے قتل کے بعد یہ میز الٹ گئی مگر ریکارڈنگ کا عمل جاری رہا۔ ایک منٹ اور تینتالیس سیکنڈ کی اس ریکارڈنگ میں مختلف گولیوں کی آواز اور بھگڈر کا احوال محفوظ ہو گیا۔ یہ ریکارڈنگ انکوائری کمیشن میں متعدد مواقع پر پیش کی گئی۔ ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں لیاقت علی کی بہت سی تقاریر محفوظ ہیں مگر پاکستان کے کسی ریڈیو سٹیشن پر پونے دو منٹ کی یہ اہم ترین ریکارڈنگ موجود نہیں۔
انسپکٹر جنرل پولیس اعتزاز الدین کے بعد لیاقت علی کے قتل کی تفتیش ڈی آئی جی سرحد اے بی اعوان کے سپرد کی گئی۔ اے بی اعوان کے مطابق جب اس تفتیش کی مکمل رپورٹ محمد علی بوگرہ کو پیش کی گئی تو انہوں نے اس پر کوئی توجہ دیے بغیر نہایت بے رخی سے صرف اتنا کہا کہ حکومت اس ضمن میں سکاٹ لینڈ یارڈ کی خدمات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
(باقی صفحہ نمبر7پر)

پاکستان کی سیاست میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کی اہمیت
محمد علی بوگرہ نے برطانوی سکاٹ لینڈ یارڈ کے ایک افسر مسٹر یورین کو لیاقت قتل کیس کی تفتیش کے لیے وزارت داخلہ میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس کا عہدہ دے کر افسر بکار خاص مقرر کیا۔ انہوں نے سات ماہ تک تحقیقات کرنے کے بعد 6 جون 1955 کو وزیر داخلہ جنرل اسکندر مرزا کو اپنی رپورٹ پیش کر دی۔ یہ رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہ آ سکی۔ لیاقت علی خاں کے صاحبزادوں اکبر لیاقت علی اور اشرف لیاقت علی نے برطانیہ میں عرصہ تعلیم کے دوران اس ضمن میں تحقیق کرنا چاہی تو اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ریکارڈز آفیسر کے مطابق نیو اسکارٹ لینڈ یارڈ کے ریکارڈ میں لیاقت علی قتل کی انکوائری سے متعلق کوئی مواد ہی موجود نہیں تھا۔
لیاقت علی خاں کے قتل پر ملکی یا غیر ملکی تجزیوں یا تبصروں میں کسی ذمہ دار ذریعے نے کبھی الزام نہیں لگایا کہ اس المیے میں سوویت یونین، بھارت یا افغانستان کی حکومتوں کا ہاتھ تھا۔ حتٰی کہ ماسکو میں امریکی سفارت خانے نے بھی اس معاملے میں سوویت یونین کے ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
برطانیہ کو لیاقت علی کے قتل میں اس بنیاد پر ملوث کرنے کی کوئی قابل یقین شہادت نہیں ملتی کہ اسے لیاقت علی خاں کے برطانیہ کی بجائے امریکہ کی طرف جھکنے پر کوئی ناراضی تھی۔ لیاقت علی خاں کے منظرِ عام سے ہٹنے پر سامنے آنے والی قیادت تو ممکنہ طور پر برطانیہ کی طرف جھکاؤ کا لیاقت علی سے بھی کم میلان رکھتی تھی۔
لیاقت علی خاں کے صاحبزادوں کے مطابق شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے بیگم لیاقت علی کو بتایاتھا کہ ان کی ایجنسیوں کے علم میں ہے کہ یہ قتل پاکستان کی اندرونی سیاست کا شاخسانہ ہے ۔ لیاقت علی خاں جیسے مقبولِ عام رہنما کی موجودگی میں ان سرکاری اہلکاروں کی دال نہیں گل سکتی تھی جو پاکستان پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کرنا چاہتے تھے ۔ لیاقت علی کے سوا کسی سیاسی رہنما کی قامت ایسی نہیں تھی کہ ان دھانسو سرکاری ملازموں کے آڑے آ سکے ۔
غلام محمد نے رش بروک ولیمز کو بتایا تھا کہ پاکستان کو ایسی مضبوط قیادت کی ضرورت ہے جو جماعتی وابستگیوں سے آزاد ہونے کے سبب قومی مفادات کے سوا ہر مصلحت کو نظر اندا ز کر سکے ۔ دوسری طرف محدود جمہوریت کے حامی سکندر مرزا کا خیال تھا کہ پارلیمانی نظام اپنانے سے پاکستان تباہ و برباد ہو جائے گا۔ ادھر ایوب خان کو اعتماد تھا کہ فوج کے سربراہ کی حیثیت سے طاقت کی اصل کنجی ان کے پاس تھی۔ یعنی غلام محمد، سکندر مرزا اور ایوب خان پاکستان میں اقتدار اعلیٰ حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے ۔ سکندر مرزا اس جتھے کا دماغ تھا، غلام محمد افسر شاہی کو قابو میں رکھنے کا وسیلہ تھے ۔ سکندر مرزا کو اعتماد تھا کہ ایوب خان ان کا ساتھ دیں گے ۔ نئے بندوبست کے خارجی ترجمان کی حیثیت سے انگریز راج کے تجربہ کار خدمت گزار ظفراللہ خان دستیاب تھے ۔ سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ بھی اپنے لیے بہتر سیاسی امکانات دیکھ رہے تھے ۔
1949 کے اوائل میں لیاقت علی نے دورہ روس کی دعوت مسترد کر کے امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ مجوزہ دورہ روس کے ممکنہ وفد میں بیگم شاہنواز کا نام شامل تھا۔ ان کے مطابق غلام محمد اور ظفر اللہ خان نے دورہ روس کی شدید مخالفت کی تھی۔ تاہم لیاقت علی خاں متعدد مواقع پر اعلان کر چکے تھے کہ پاکستان کو بڑی طاقتوں کا دم چھلہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ ان کا بھارت کو مکہ دکھانا بھی بین الاقوامی سطح پر اشتعال انگیزی سمجھا گیا۔
وینکٹ رامانی پاکستان میں امریکہ کا کردار میں لکھتے ہیں کہ امریکی محکمہ خارجہ، محکمہ دفاع، سی آئی اے اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کی خفیہ دستاویزات کے مطابق 1951 کے موسمِ خزاں میں پاکستان کے حوالے سے امریکی ترجیحات یہ تھیں۔ (الف) پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے خطرے کا خاتمہ۔ (ب) پاکستان کے ساتھ ایسی مفاہمت جو امریکہ کو اس ملک میں فضائی اڈے رکھنے کے قابل بنا دے اور(د) پاکستان کو فوجی امداد کی فراہمی جو بھارت کے ساتھ فوجی عدم توازن کو کم کر دے ۔
حال ہی میں سامنے آنے والی خفیہ دستاویزات میں کراچی میں امریکی سفیر وارن کا امریکی وزیر خارجہ کے نام ایک تار شامل ہے جو 7 ستمبر 1951 کی شام بھیجا گیا۔ اس روز شدید بیمار غلام محمد نے امریکی سفیر سے ملاقات کی تھی (یہ بتانا مشکل ہے کہ یہ ملاقات خفیہ تھی یا نہیں )۔ اس معنی خیز پیغام کا آخری حصہ قابل غور ہے ۔
غلام محمد (وزیرِخزانہ ) کہتا ہے کہ وہ پاکستان کی تعمیر اور نیز مسلم دنیا کو کیمونزم کے خلاف منظم کرنے کا نصب العین پورا کیے بغیر مرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اس نے کہا ہے کہ آپ کو بتا دیا جائے کہ وہ خود، ظفراللہ اور گورمانی بھارت سے چھیڑخانی کو جنگ میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے ۔ غلام محمد دسمبر میں امریکہ کا دورہ کرے گا اور اس موقع پر آپ سے ملنا چاہے گا۔
لیاقت علی کے قتل سے پانچ ہفتے قبل بھیجے گئے اس پیغام میں وزیر اعظم لیاقت علی کا ذکر سرے سے غائب ہے ۔ گویا مستقبل کی منصوبہ بندی میں وزیرِ اعظم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ وزیرِ خزانہ غلام محمد کو شدید علالت کے باعث وزارت سے سبکدوش کیا جا رہا تھا مگر وہ دسمبر میں امریکہ کا دورہ کرنے کا پروگرام بنا رہا تھا۔ گویا اسے معلوم تھا کہ وہ دسمبر میں بھی نہ صرف حکومت کا حصہ ہو گا بلکہ امریکی وزیرِ خارجہ سے بھی ملاقات کر سکے گا۔ امریکی وزیرِ خارجہ وزیرِ خزانہ سے تو ملاقات نہیں کرتا۔
غلام محمد کس حیثیت میں مسلم دنیا کو کیمونزم کے خلاف منظم کرنے کے منصوبے باندھ رہا تھا۔ بھارت کے خلاف جنگ روکنا یا شروع کرنا بھی وزیرِ خزانہ کا منصب نہیں۔ پاکستان کی تعمیر جیسے قائدانہ لہجے سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا پاکستان کی قیادت سنھالنے کی تیاری مکمل تھی۔ دلچسپ بات یہ کہ اس پیغام میں امریکی ترجیحات تسلیم کرنے کا ٹھیک ٹھیک اشارہ دیا گیا ہے ۔
بھارت سے متعلق آئندہ پالیسی بیان کرتے ہوئے جن تین اصحاب کا ذکر کیا گیا وہ تینوں پنجاب سے تعلق رکھتے تھے اور سرکاری ملازمت کا پس منظر رکھتے تھے ۔ تینوں لیاقت علی کے قتل کے بعد مقتدر ٹولے میں شامل تھے ۔ اس اہم معاملے میں لیاقت علی کا ذکر تک نہیں۔ گویا لیاقت علی کا منظر سے ہٹنا طے ہو چکا تھا۔ نیز یہ کہ اگر امریکی لیاقت علی کے قتل میں شریک نہیں تھے تو بھی انہیں اس صورتِ حال کا کچھ نہ کچھ علم ضرور تھا۔
16 اکتوبر 1951 کی شام جب وزیرِ اعظم لیاقت علی حاں کو قتل کیا گیا، پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ ہالینڈ میں تھے ۔ ٹھیک دو روز بعد 18 اکتوبر 1951 کو اکرام اللہ امریکہ میں پاکستانی سفیر ایم ایم ایچ اصفہانی کی معیت میں امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جارج میگی کے دفتر (واشنگٹن) پہنچے ۔ اکرام اللہ نے جارج میگی کو بتایا کہ وہ امریکی وزیرِ خارجہ ایچی سن کے نام مرحوم وزیر اعظم لیاقت علی خاں کا ایک خط لے کر آئے ہیں۔ لیاقت علی کے خط میں پاکستان کے لیے دفاعی سازو سامان کی درخواست کی گئی تھی اور خط پر 25 اگست 1951 کی تاریخ درج تھی۔ سوال یہ ہے کہ ایک اہم مسئلے پر 25 اگست 1951 کو لکھا گیا خط 18 اکتوبر تک امریکہ کیوں نہ پہنچ سکا۔
اکرام اللہ کی ملاقات امریکی وزیرِ خارجہ ایچی سن سے 22 اکتوبر 1951 کو ہو سکی جب یہ خط بالآخر مکتوب الیہ تک پہنچایا گیا۔ اکرام اللہ نے ایچی سن کو بتایا کہ نئے گورنر جنرل غلام محمد خط بھیجنے کے فیصلے میں شریک تھے ۔ یہ فیصلہ کب کیا گیا؟ لیاقت علی کے اس خط پر دستخط کرنے کا مطلب تھا کہ وہ اسے ارسال کرنا چاہتے تھے ۔ جب اکرام اللہ کراچی سے روانہ ہوئے تو لیاقت علی خاں زندہ تھے ۔ غلام محمد نے 17 اکتوبر کو گورنر جنرل کا حلف اٹھایاتو اکرام اللہ بحیرہ اوقیانوس پر محو پرواز تھے ۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ لیاقت علی کے قتل میں شریک سازشی ٹولے نے یہ خط دانستہ طور پر روکے رکھا تاکہ لیاقت علی کے منظر سے ہٹنے کے بعد اسلحے کی خرید نیز مشرق وسطیٰ میں اعتدال پسندی کے فروغ میں کردار کے ضمن میں امریکی انتظامیہ کی نظر میں اپنا مقام بڑھایا جا سکے ۔
اردو رسم الخط میں لیاقت کے ہجے میں قتل اور قاتل دونوں کے حروفِ تہجی موجود تھے ۔ لیاقت علی خاں کی سیاسی لیاقت اور بصیرت ہی ان کے خونِ ناحق پر منتج ہوئی۔ پروفیسر مہدی حسن کے مطابق غلام محمد مرض المرگ میں ہذیانی کیفیت کا شکار ہو کر چلاتا تھا کہ لیاقت کے قتل کا سارا الزام مجھ ہی پر کیوں دھرا جاتا ہے ۔ گورمانی بھی تو شریک تھا۔ لیڈی میکبتھ نے ٹھیک ہی کہا تھا، ڈنکن کے خون کے دھبے پورے بحیرہ عرب سے بھی نہیں دھلتے ۔