عالمی بینک کا انتباہ

474

مہنگائی کا اژدہا ملک میں ہر چیز کو نگلتا جارہا ہے ۔عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی شرح 13 فیصد سے زیادہ ہی رہے گی ۔ دیکھنے میں تو یہ شرح 13 فیصد ہے مگر اس کے اثرات عام آدمی سے معلوم کریں تو پتا چلتا ہے کہ صورتحال کتنی سنگین ہے ۔ مرچ پر 13 فیصد اضافہ ہو تو بھی یہ صارف کو زیادہ محسوس نہیں ہوتا لیکن اگر پٹرول ، گیس اور بجلی کے نرخوںمیں پانچ فیصد بھی ہو تو اس کے اثرات ہزاروں میں پہنچ جاتے ہیں ۔ شہری مہنگائی کے طوفان تلے دب کر سسک رہے ہیں مگر اس کا تدارک کرنے کے بجائے وزیرا عظم عمران خان کی آنیاں اور جانیاں جاری ہیں ۔ اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے مہنگائی کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ کو وزرائے اعلیٰ کا اجلاس طلب کرلیا ہے ۔ اس اجلاس کی طلبی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہنگائی کے ذمہ دار وزرائے اعلیٰ ہیں ،ا سی لیے انہیں طلب کیا گیا ہے ۔ وزیراعظم کی ترجمان کا کہنا ہے کہ وزرائے اعلیٰ کو ہدایت کی جائے گی کہ وہ ذخیرہ اندوزوں سے نمٹیں اور مقرر کردہ نرخوں پر اشیائے صرف کی فراہمی کو یقینی بنائیں ۔ یہ بات ضرور ہے کہ اشیائے صرف کی مقرر کردہ نرخوں پر فراہمی کی ذمہ داری صوبوں کی انتظامیہ ہی پر عائد ہوتی ہے مگر سرکار کے مقرر کردہ نرخوں کو دیکھیں تو مذاق معلوم ہوتاہے ۔ سرکار کے نرخوں کے مطابق بکرے کا گوشت 700 روپے فی کلو، گائے کا گوشت 350 روپے فی کلو، دودھ 75 روپے فی لیٹراور دہی 85 روپے فی کلو فروخت ہونا چاہیے ۔ اسی طرح 100 گرام کا نان 8 روپے کا ملنا چاہیے ۔ اس کے مقابلے میں مارکیٹ کے نرخ دیکھیں تو پتا نہیں چلتا کہ حکومت نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں یا ایسی فہرستوں کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے ۔ اسی طرح عمران خان یہ بتائیں کہ وفاقی حکومت کے ماتحت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی منظوری سے ادویہ کی قیمتوں میں جو کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے ، اس کو کس طرح سے وزرائے اعلیٰ کم کروائیں گے ۔ تحریک انصاف کے برسراقتدار آتے ہی ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا جو طوفان آیا ہے ، اس کے بارے ہر شخص علم رکھتا ہے کہ اس کا تعلق صوبائی حکومتوں سے نہیں ہے بلکہ عمران خان کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے ۔ اگر صوبائی حکومتوں کی نالائقی کی وجہ سے مہنگائی آئی ہوتی تو کسی صوبے میں مہنگائی زیادہ ہوتی اور کسی میں کم ۔ یہ تو عمران خان نے برسراقتدار آتے ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں روز کی بنیاد پر کمی کرنا شروع کی جس کے نتیجے میں بند ٹوٹ گیا اورمہنگائی کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا ۔ اس کے نتیجے میں بجلی ، پٹرول اور گیس بھی مہنگے ہوئے اور پھر ان سب کے اثرات نے صنعت و حرفت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ا س پر مستزاد عمران خان کی ٹیم نے ٹیکسوں میں اضافے شروع کردیے اور شرح سود کو ساڑھے سات فیصد سے بڑھا کر ساڑھے تیرہ فیصد پر لے آئی ۔ اس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں ختم ہی ہوکر رہ گئیں اور ملک میں بے روزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ۔پہلے آئی ایم ایف کے احکامات پر معاشی پالیسی کی تشکیل کرکے تباہی پھیری گئی اور اس کے بعد ملک کی وزارت خزانہ ، ٹیکس جمع کرنے والا ادارہ اور مرکزی بینک ہی آئی ایم ایف کے حاضر سروس ملازمین اور پسندیدہ افراد کے براہ راست حوالے کردیے گئے ۔ عالمی بینک نے پاکستان کی معاشی حالت میں مزید ابتری کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں پاکستان کی معاشی حالت مزید خراب ہوسکتی ہے ۔ عالمی بینک نے اپنی رپور ٹ میں عمران خان اور ان کے بزرجمہروں کی کامیابی کے تمام ہی دعووں کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی حکومت افراط زر ، عوامی قرضوں اور مالی خسارے میں کمی کے اہداف آئندہ دو برسوں میں بھی پوری نہیں کرسکے گی ۔ عالمی بینک نے بھی مہنگائی میں بے پناہ اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ دو برسوں میں بھی مہنگائی میں کمی نہیں آئے گی بلکہ یہ اس خطے میں بلند ترین سطح پر ہوگی ۔ عالمی بینک نے پاکستان میں ترقی کی کم شرح کی وجہ عمران خان کی مانیٹری پالیسی کو قرار دیا ہے ۔ سارے معاشی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ملک میں معاشی استحکام کے لیے روپے کی شرح تبادلہ کو نہ صرف مستحکم کیا جائے بلکہ اسے ایک سو روپے فی ڈالر کی سطح پر لایا جائے ، بجلی کے نرخوں میں لوٹ مار کو بند کرکے حقیقی سطح پر لایا جائے اور ارزاں بجلی پیدا کرنے کے جدید طریقے اختیار کیے جائیں ، گیس کے نرخ کم کیے جائیں ، ٹیکس کم کرکے مناسب سطح پر لائے جائیں اور ان کی وصولی کا بھی مناسب طریقہ اختیار کیا جائے ، ایف بی آر کے صوابدیدی اختیارات ختم کیے جائیں ، نیب کے سارے ہی افسران اور احتساب عدالت کے ججوں اور اہلکاروں کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کی جائے ، کاروبار دوست معاشی پالیسی تشکیل دی جائے تو ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے ۔ عمران خان کی پالیسیوں کی کامیابی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کون سا طبقہ ہے جو اس وقت احتجاج نہیں کررہا اور ہڑتال پر نہیں ہے ۔ ٹیچر، کسان ، تاجر ، دکاندار، سیاسی پارٹیاں ، کون ہے جو سڑکوں پر نہیں ہے ۔عمران خان کو ان کی معاشی پالیسیوں کے اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے اب اور مزید کیا چیز درکار ہے ۔ سارے ہی اشاریوں میں مہنگائی کے اونچے ہوتے گراف ، عالمی اداروں کی رپورٹ ، ملک کے معاشی ماہرین کی تنبیہات ، شہروں شہروں تاجروں کی ہڑتال، کاروباری افراد کا اسلام آباد میںمسلسل احتجاج اور اب دو روزہ ہڑتال کی اپیل ۔یہ سب حکومت کو اس کی کارگزاری سے آگاہ کرنے کے لیے کافی ہیں مگر حکومت ہے کہ بیانات سے ہی کام چلانا چاہتی ہے کہ گراں فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے ۔ عمران خان کسی محاذ پر تو کام دکھائیں ۔ کشمیر کے محاذ پر عمران خان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے ۔ اس محاذ پر وہ صرف اپنی تقریر ہی سے کام لینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ملک اس وقت شدید بدامنی اور افراتفری کا شکار ہے مگر یہاں پر بھی صرف اور صرف بیانات ہیں۔ مہنگائی کے سونامی نے سب کو تباہ کردیا ہے مگر عمران خان کی دوڑ دھوپ جاری ہے ۔