ویکسین ناپید اور سگ آزاد

339

گزشتہ پیر کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں ایک پاگل کتے نے 25افراد کو کاٹ لیا جن میں پولیس کا ایک سب انسپکٹر بھی شامل ہے۔ پولیس افسر لوگوں کو پاگل کتے سے بچانے کے لیے آیا تھا۔ اس واردات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر پر کتوں کا راج ہے۔ اندرون سندھ سے تو ایسی اطلاعات آتی ہی رہتی ہیں اور متاثر افراد ویکسین کی تلاش میں در در بھٹکتے پھرتے ہیں۔ لیکن سندھ حکومت یہی راگ الاپ رہی ہے کہ سگ گزیدگی کی دوا ہر جگہ موجود ہے۔ مگر کراچی میں مذکور واردات سے یہ پول کھل گیا کہ جب مریضوں کو سرکاری اسپتال لے جایا گیا تو ویکسین وہاں بھی موجود نہیں تھی۔ اس صورت حال پر وزیر اعلیٰ نہ سہی وزیر صحت کو ضرور شرم آنی چاہیے۔ ایک متاثرہ بچے کے پریشان والدین ویکسین نہ ملنے پر بد دعا دے رہے تھے کہ خدا کرے حکمرانوں کو بھی پاگل کتا کاٹ لے اور ویکسین نہ ملے۔ بے چارگی کے عالم میں منہ سے بد دعائیں ہی نکلتی ہیں اور اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب مظلوموں کی بد دعا قبول ہو جائے۔ بے حسی اور سنگدلی کی انتہا ہو چکی ہے۔ کیا سندھ کے شہروں میں کتوں کی بھرمار پر قابو پانے کے لیے بھی صوبائی حکومت وفاق پر الزام دھرے گی کہ اس نے کتے مارنے کے لیے فنڈز فراہم نہیں کیے اور وفاقی حکومت جواب دے گی کہ اس کی ذمے دار بھی سابق حکومتیں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پاگل کتا خود ہی مر گیا گو کہ اس کے لیے رینجرز بھی طلب کرلیے گئے تھے۔ مراد علی شاہ نے شہر کا چکر لگایا تو کچرا اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھ کر ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ لیکن انہیں شاید کتوں کے غول نظر نہیں آئے۔ وہ محافظ دستوں کے بغیر شہر کا ایک اور چکر لگالیں تو کتنے بھی نظر آجائیں گے، وزیر اعلیٰ ہائوس سے باہر نکل کر دیکھیں تو سہی۔