امریکی خواہش پر ترکی کی شام میں جنگ بندی

1329

انقرہ/ دمشق: شامی میں جاری تُرک فوجی کارروائی کے تناظر میں امریکی نائب صدر مائیک پنس، وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وائٹ ہاؤس کے مشیر قومی سلامتی رابرٹ او برائن نے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کی۔

خبررساں اداروں کے مطابق یہ ملاقات جمعرات کے روز انقرہ کے صدارتی محل میں ہوئی، جو ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ اس دوران شام میں امریکی حلیف کردوں کے خلاف ترکی کی فوجی کارروائی ’’منبع امن‘‘ اور انقرہ کے خلاف ٹرمپ انتظامیہ کی نئی اقتصادی پابندیوں پر بات ہوئی۔

اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے گرم جوشی اور مسکراہٹوں کا تبادلہ نہیں کیا، بلکہ چہروں پر ناراضگی کے آثار واضح طور پر دیکھنے میں آئے، تاہم ترکی نے امریکی خواہش پر شام میں جاری اپنی فوجی کارروائی کو عارضی طور پر روکنے پر آمادگی ظاہر کردی۔

خبر رساں اداروں کے مطابق ترکی نے شرط رکھی ہے کہ کرد ملیشیائیں مجوزہ محفوظ علاقے کو رضاکارانہ طور پر خالی کردیں۔ ترکی 5 دن تک اپنی پیش قدمی معطل کردے گا۔

امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کے مطابق مذاکرات سے قبل اپنی آمد کے فوری بعد امریکی نائب صدر نے تُرک صدر سے اکیلے میں ملاقات کی، جس میں ان دونوں کے علاوہ صرف مترجم موجود تھے۔ پنس کو ترکی پہنچنے پر صحافیوں کی طرف سے صدر ٹرمپ کے اس خط سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بارے میں ترکی کا کہنا ہے کہ اسے کوڑے دان میں پھینک دیا گیا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے بدھ کے روز صدر ٹرمپ کی جانب سے 9 اکتوبر کو تُرک صدر کو بھیجا جانے والا خط جاری کیا تھا، جس میں ٹرمپ نے اردوان کو ایک مشکل شخص قرار دیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ آپ ہزاروں لوگوں کی ہلاکتوں کے ذمے دار بننا نہیں چاہیں گے اور میں بھی یہ نہیں چاہوں گا کہ ترکی کی معیشت کی تباہی مجھ سے منسوب ہو۔ دوسری جانب شامی مبصر برائے انسانی حقوق نے بدھ کی شب بتایا کہ تُرک فوج نے راس العین شہر پر ایک نیا حملہ کیا ہے۔

17 اکتوبر

جرمنی نے بھی ترکی کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دی

شام کے شمال مشرقی علاقے میں جاری کرد جنگجوؤں کے خلاف  ترک فوجی کارروائیوں پرجرمنی نے بھی انقرہ حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی روک دی۔

جرمن ایوان زیریں میں خطاب کرتے ہوئے چانسلر انیجلا میرکل نےاعلان کیا کہ جرمنی ترکی کو شام میں فوجی کارروائیوں کے باعث ہتھیاروں کی فراہمی روک رہا ہے۔

چانسلر انیجلا میرکل نے اپنے خطاب میں کہا کہ: “میں گزشتہ کئی دنوں سے ترکی پر فوجی کارروائیاں روکنے پر روز دے چکی ہوں اور ایک پھر بار کہہ رہی ہوں کہ ترکی فوراً یہ کارروائیاں روکے”۔

انہوں نے مزید کہا کہ: “یہ ایک انسانی المیہ ہے جس کے بڑے جغرافیائی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے جرمنی نے ترکی کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کیا ہے”۔

امریکی صدر کا ترک صدر کو لکھا گیا خط منظر عام پر آگیا

ترک افواج کی جانب سے شام میں کرد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے آغاز پر امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ترک ہم منصب اردوان کو لکھا گیا غیرمعمولی خط منظر عام پرآ گیا۔

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق خط اتنا عجیب ہےکہ وائٹ ہاؤس سے اس کے حقیقی ہونے کی تصدیق کرانا پڑی۔

امریکی صدر نے خط لکھا کہ آپ ہزاروں افرادکو مارنے کا ذمہ دار نہیں بنناچاہتے، میں بھی ترک معیشت تباہ کرنے کا ذمہ دار نہیں بننا چاہتا۔میں نے آپ کے کئی مسائل حل کیے، دنیا کو نیچا نہ دکھائیں، آپ ایک عمدہ سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے طیب اردوان کو تحکمانہ انداز میں کہا کہ اکھڑ اور احمق مت بنو، انسانیت کے انداز سے اقدام اٹھایا تو تاریخ آپ کو اچھے لفظوں سے یاد رکھے گی، اچھے اقدام نہ ہوئے تو تاریخ آپ کو شیطان کی حیثیت سے یاد کرے گی۔

امریکی صدر نے لکھا کہ کرد فوجی جنرل مظلوم عابدی آپ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، جنرل مظلوم وہ رعایتیں دینے پر تیار ہیں جو کبھی نہیں دیں، جنرل مظلوم کا مجھے بھیجا گیا خط بھی آپ کو ارسال کررہا ہوں۔

 آپریشن میں 673 کرد دہشت گرد ہلاک

شام میں کردملیشا کیخلاف ترک فورسز کا آپریشن نویں روز میں داخل ہوگیا ، ترک آپریشن کے نتیجے میں 673سے زائد کرد ملیشیا کےدہشت گرد ہلاک کیے جاچکے ہیں ۔

شام میں جاری ترک آپریشن (بہار امن )نویں روز میں داخل ہوگیا ہے جس میں کرد ہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری ہے 673 سے زائد د دہشت گرد وں کو ہلاک کیا جاچکا ہےجبکہ 100 کلومیٹر کا علاقہ واگزار کرالیا گیا ہے ۔

دوسری جانب کردوں سےمعاہدے کےبعدشامی اورروسی فوج بھی کوبانی کےسرحدی علاقے میں داخل ہوگئی ہیں۔

ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیلیےترک صدر طیب اردوان22 اکتوبر کو روس کا ایک روزہ دورہ کریں گے، جہاں وہ روسی صدرپیوٹن سےشام ،علاقائی صورتحال پرتبادلہ خیال کریں گے۔

تاہم ترکی میں موجود امریکی سیکیورٹی مشیر کی ترک وزیر دفاع سے ملاقات کی ، شام کی صورتحال،سیف زون،دفاع ،سیکیورٹی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

16 اکتوبر

ترک صدر طیب اردوان نے دورہ پاکستان ملتوی کردیا

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا دورہ پاکستان ملتوی ہوگیا ہے۔اہم سفارتی ذرائع کے مطابق ترکی کے صدر طیب اردوان 23اکتوبر کو سرکاری دورے پر پاکستان آرہے تھے تاہم ترکی اور شام کے درمیان جاری کشیدگی کی وجہ سے دورہ ملتوی کردیا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ دورے کی نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

روسی صدر کا ترک ہم منصب کو فون، دورہ ماسکو کی دعوت

روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ترک صدر رجب طیب اددوان سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔

کریملن کے صدارتی محل سے جاری بیان کے مطابق روسی صدرولادی میرپیوٹن نے ترک صدررجب طیب اردوان سےٹیلیفون کر کے شمالی شام میں تر ک آپریشن کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر گفتگو کیا،دونوں رہنماؤں نےترک،شامی فوج کےدرمیان ممکنہ ٹکراؤسےبچنےکی ضرورت پربھی بات چیت کی۔

روسی صدرنےترک ہم منصب کودورہ ماسکو کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ وہ شمالی شام کے مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ شمالی شام کے اہم شہر منبج میں ترک اور شامی فورسز کے درمیان روسی فورسز دیوار بن کر کھڑی ہیں تاکہ بشار الاسد اور ترک فوج میں تصادم نہ ہونے دیا جائے۔

ترک صدر نے جنگ بندی کا امریکی مطالبہ رد کردیا

ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شام میں جنگ بندی کا مطالبہ رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی کبھی بھی جنگ بندی کا اعلان نہیں کرے گا۔

ترک صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکا شام کے شمال مشرقی علاقےمیں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز امریکا نے ترکی پر معاشی اور تجارتی پابندیاں عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ترکی فوراً شام میں جنگ بندی کا اعلان کرےجسے آج ترک صدر نے مسترد کردیا ہے۔

رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ ترکی پر شدیددباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ کرد جنگجوؤں کے خلاف جاری فوج کارروائیوں کو روکے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی پر بھاری معاشی اور تجارتی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں مگر ان سب کے باوجود ہماری نیت صاف ہے، ہمیں پابندیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔

ترک آپریشن رکوانے کیلئے امریکی نائب صدر ترکی روانہ

واشنگٹن: امریکا کے انخاء کے بعد شام میں جاری ترک فوجی آپریشن پر بات چیت  کیلئے امریکی نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو ترکی کے دورے پر روانہ ہوگئے ۔

امریکی میڈیا کے مطابق مائیک پینس جمعرات کو ترک صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کریں گےاور شام کی صورت حال پر بات کریں گے جبکہ وفد میں مائیک پومپیو کے علاوہ قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن بھی شامل ہوں گے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ترک صدر سے بات چیت میں امریکی نائب صدر شام میں جنگ بندی اور مذاکرات پر زور دیں گے۔

 مائیک پینس کا کہنا ہے کہ جب تک شام کے معاملے کا حل تلاش نہیں کیا جاتا ٹرمپ اس وعدے پر قائم رہیں گےاور ترکی کے خلاف سخت معاشی پابندیاں برقرار رہیں گی ۔

دوسری جانب رواں ہفتے امریکا کے جانب سے نائب صدر نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ  ترکی کےوزیر دفاع، توانائی اور داخلہ پر پابندیاں عائد کررہے ہیں ۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس میں یہ بات مسلسل کی جارہی ہے کہ امریکا  نےانخلاء کے وقت ترکی کو شام میں داخل ہونے کا کوئی اشارہ دیا تھا۔آج صدر ایردوان سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے سختی سے کہا کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی کے لیے تیار ہوجائیں۔

واضح رہے کہ ترک صدر نے امریکی دھمکی کے جواب میں کہا ہے کہ “ترکی اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے ہر حد تک جائے گا “۔

15 اکتوبر

امریکا نے ترک معیشت پر حملہ کردیا

امریکا نے ترکی پر معاشی اور تجارتی پابندیاں عائد کرتے ہوئے شام میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کردیا ہے۔

امریکا کے نائب صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ترکی پر معاشی اور تجارتی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ صدر ٹرمپ نے انقرہ حکومت سے شام میں جاری فوجی کارروائیاں روکنے اور جنگ بندی مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ ترکی شام کے شمال مشرقی علاقے میں کرد جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائیاں کر رہا ہے جس میں اب تک 500 سے زائد دہشت گرد ہلاک ہوچکے ہیں۔ فوجی کارروائیوں کا مقصد اس  علاقے میں ترکی میں موجود شامی محاجرین کے لیے”محفوظ علاقہ” قائم کرنا ہے۔

مائیک پینس نے بتایا ہے کہ امریکا نے ترک حکومت کے وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور وزیر تونائی پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ ان وزرا کے امریکا میں موجود اثاثوں کو منجمد کیا جائے گا جبکہ ان کے ساتھ ہر قسم کی لین دین معطل کردی گئی ہیں۔

امریکی نائب صدر کے مطابق صدر ٹرمپ نے ترکی کے ساتھ 100 بلین کے تجارتی معاہدے کو بھی فی الحال روک دیا ہےاور ساتھ ہی اسٹیل کے نرخوں میں 50 فیصداضافے کا بھی اعلان کیا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ  وہ جلد ہی اپنے نائب صدر اور قومی سلامتی  کے مشیر کو مذاکرات کے لیے ترکی بھیجیں گے۔

14 اکتوبر

شامی فوج کردوں کی مدد کو آگئی،550 جنگجو ہلاک

ترک وزارت دفاع نے کہا ہے کہ شمالی شام میں کرد ملیشیا کےخلاف آپریشن  میں اب تک 550 کرد دہشتگرد مارے گئے ہیں۔

ایک بیان میں ترک وزارت دفاع نے بتایا ہے کہ شام کے شمال مشرقی علاقے میں ترک فورسز کی پیش قدمی جاری ہے اور آپریشن کامیابی سے تیسرے روز بھی داخل ہوگیا ہے، ترک اوراتحادی فورسزنےآپریشن میں تل ابیض ضلع کا مرکزی علاقہ  کلیئرکرالیا ہے جب کہ دوشہروں کے مرکزی علاقوں سمیت 56 گاؤں کردوں  کےقبضے سے آزاد کرالیے گئے ہیں۔

شامی حکومت کی فوج کردوں کی مدد کیلیے آگئی

ترک آپریشن کے خلاف کردوں کے لیے شامی حکومت کی فوج مدد کو آن پہنچی۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک آپریشن کیخلاف شامی حکومت نےاپنی فوج شمالی سرحد پربھیجنےپرکردوں سےاتفاق کرلیا ہے جس کے بعد کردوں کی مدد کے لیے شام کی فوج کو ملک کے شمال میں تعینات کر دیا گیا ہے۔

کردوں کی زیر اثر انتظامیہ نے فیس بک پر اپنے بیان میں لکھا کہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے تحت شامی حکومتی فورسز ترک افواج سے مقابلے کے لیے ساتھ دیں گی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سیرین ڈیموکریٹ فورسز(ایس ڈی ایف) کی مدد کے لیے بشار الاسد کی افواج شمالی شام میں ترک سرحد پر تعینات کی جائیں گی۔

ترکی کے منبع امن آپریشن کے باعث شدید لڑائی میں اپنے کسی جانی نقصان کے پیش نظر امریکا نے شمالی شام میں تعینات اپنی فوج کو نکال لیا ہے جب کہ امریکی صدرکا یورپی ملکوں سےشام میں قید داعش قیدیوں کوواپس لینےکامطالبہ کیا ہے۔

کرد جنگجوؤں نےساتھ نہ ددینے پرشامی شہریوں کو ہی مار ڈالا

شام میں جاری ترکی کے فوجی آپریشن میں شامی دہشت گرد تنظیم (وائے پی جی) اور( پی کے کے) نے اپنے زیر تسلط علاقوں سے شامی شہریوں پر حملےشروع کردئیے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترکی کافوجی آپریشن بہار امن بھرپور آب و تاب کے ساتھ جاری ہے  جبکہ شامی باغیوں نے ماردن اور شانلی عرفا میں بمباری کر کے11 شہریوں کو ہلاک کردیا جبکہ 37 زخمی ہوگئے۔

ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں ترکی ریڈیو ٹیلی ویژن کارپوریشن اور ٹی آرٹی چینل کے ملازمین بھی شامل ہیں۔

سعودی عرب کے بغیرشام کے مسئلے کا حل ممکن نہیں، روسی صدر

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے بغیر شام کے مسئلےکو حل کرناممکن نہیں

سعودی عرب کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل العریبیہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں روسی صدرولاد یمیر پیوٹن نےسعودی آئل تنصیبات پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ روس اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر عالمی منڈیوں میں عدم استحکام ختم کرے گا۔روسی صدر نے کہا کہ وہ آرامکو تنصیبات پر حملےکی تحقیقات میں سعودی عرب کی مددکررہےہیں،

پیوٹن نے کہا کہ روس اور سعودی عرب کے دوستانہ تعلقات ہیں، گزشتہ سالوں میں سعودی عرب اور روس کے مابین معاشی تعاون میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ممالک کےدرمیان رابطے بڑھانے میں سعودی ولی عہد کا اہم کردار ہے، روس کے ساتھ فوجی تعلقات کا آغاز محمد بن سلمان نےکیا۔

روس کے ایران، سعودی عرب اور یواےای کے ساتھ اچھے تعلقات سے سب کوفائدہ ہوگا، سعودی عرب اوریواےای خودایران کےساتھ مسائل حل کرسکتے ہیں،

انہوں نے کہا کہ ہمارے ایران، سعودی عرب اور یواے ای کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

13 اکتوبر

راس العین کا انتظام تُرک فوج کے ہاتھ میں آ گیا

ترکی کی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا ہے کہ منبع امن کارروائی کے دوران شام میں دریائے فرات کے مشرقی کنارے کے علاقے میں اہم سرحدی شہر راس العین کا انتظام تُرک فوج کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔

وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ 9 اکتوبر سے اب تک تُرک فوج نے راس العین میں دہشت گردوں کے اہداف کو توپ خانے اور ایف 16 طیاروں سے تباہ کر دیا ہے ۔ جب کہ زمین پر کمانڈوز کے ساتھ شامی قومی فوج نامی ترکی کے حلیف مزاحمت کاروں نے پیش قدمی کی۔ اولین طور پر راس العین اور تل ابیض کے درمیانی علاقے میں واقع 14 دیہات امریکا نواز کرد جنگجوؤں سے چھڑائے جاچکے ہیں۔

تُرک وزارت دفاع نے اپنے بیان میں اب تک 459 کرد جنگجو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔

فوجی کارروائی کے دوران غلطی سے امریکی فوج کی ایک چوکی بھی زد میں آگئی۔ شام میں تعینات امریکی فوج کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ تُرک فوج کی گولہ باری کی زد میں امریکی فوج کی ایک چوکی بھی آئی ہے، تاہم گولہ باری کے نتیجے میں امریکی فوج کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

پینٹاگون کے مطابق اس واقعے پر تُرک فوج کو متنبہ بھی کیا گیا ہے ۔ امریکی وزارت دفاع پینٹاگان کے مطابق شام کے شہر عین العرب (کوبانی) کے اطراف موجود امریکی فوجیوں کو ترکی کے ٹھکانوں پر موجود توپ خانوں کی فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔

ہفتے کے روز جاری کردہ بیان میں پینٹاگان نے واضح کیا کہ ترکی کی فائرنگ کی کارروائی کے بعد امریکی فوج عین العرب سے نہیں نکلی اور واقعے میں کوئی امریکی فوجی زخمی نہیں ہوا۔ پینٹاگان کا مزید کہنا ہے کہ واشنگٹن اب بھی شام میں ترکی کی فوجی کارروائی کو مسترد کرتا ہے اور ترکی کو چاہیے کہ ایسی کارروائیوں سے گریز کرے جس کا نتیجہ فوری دفاعی عمل کی صورت میں نکل سکتا ہو۔ ترکی کی توپوں نے عین العرب میں بین الاقوامی اتحاد کے اڈے کو نقصان پہنچایا، جب کہ وہاں موجود بعض امریکی اور فرانسیسی فوجیوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات گردش میں ہیں۔

دوسری جانب تُرک افواج نے امریکی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ شام میں کارروائی کے دوران امریکی چوکی ان کا ہدف نہیں تھا، بلکہ گولہ باری امریکی چوکی کے قریب کرد جنگجوؤں کے ایک عسکری ہدف پر کی گئی تھی، جہاں سے گزشتہ روز کرد جنگجوؤں نے تُرک پولیس اسٹیشن پر میزائل داغے تھے ۔ تُرک وزیر خارجہ نے معاملے کی سنگینی کا ادارک کرتے ہوئے پینٹاگون سے رابطہ کیا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان روابط مزید مستحکم بنانے پر زورد دیا، تاکہ اس قسم کے واقعات مزید رونما نہ ہوسکیں اور اعتماد کی فضا قائم رہے ۔ واضح رہے کہ ترکی شام میں محفوظ علاقے کے قیام کے لیے یہ کارروائی کررہا ہے۔

ہم خوداپنی سرحدوں کی حفاظت کی صلاحیت نہیں رکھتے، ڈونلڈ ٹرمپ

شام سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے ہی ملک میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس انخلا کےفیصلے کے دفاع میں ایک بار پھر ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں دے ڈالی ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی صدر  اس سے قبل بھی ترکی کو معیشت تباہ کرنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنے فیصلے کے دفاع میں کہا ہے کہ:”مجھے نہیں لگتا کہ ہماری فوج کو ترکی اور شام کے مابین سرحدوں کی حفاظت کے لیے اگلے مزید50 سالوں کے لیے وہاں ہونا چاہیے، جبکہ ہم خوداپنی سرحدوں کی حفاظت کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں”۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا ہے کہ:”بعض اوقات ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہم کس کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہم ہمیشہ کے لیے وہاں نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے ہیروز(امریکی فوجیوں) کو واپس لانا چاہیے”۔

12 اکتوبر

ترکی کا 415 کرد جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ

ترک فوج نے شام کے شمال مشرقی علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے اب تک کم از کم 415 کرد جنگجوؤں کو ہلاک کردیا ہے.

یہ دعویٰ ترک وزیر دفاع نے اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔وزیردفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ترک فوج نے رات گئے زمینی اور فضائی کارروائیاں کرتے ہوئے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ متعدد کارروائیوں میں اب تک کم از کم 415 کرد دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔

عرب لیگ نے ترک آپریشن کو حملہ قرار دیدیا

عرب ممالک کی تنظیم ’عرب لیگ‘ نے شمالی شام میں کردباغیوں اور داعش کے دہشتگردوں کے خلاف فوجی کارروائی کو عرب سرزمین پر حملہ قرار دے دیا۔

سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط نے ایک بیان میں کہا ہے کہ  ترک فوج کی شام میں  کارروائی’عرب سرزمین پر حملہ اور اس کی خودمختاری کے خلاف جارحیت ہے‘۔

عراقی وزیر خارجہ اور عر ب لیگ کے حالیہ سیشن کے صدر محمد علی الحکیم  نے مصر میں عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں ترکی کی کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔انہوں نے لیگ کے اراکین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ باڈی میں شام کی رکنیت بحال کرے۔

ترک فوج نے غلطی سے امریکی چوکی کو نشانہ بنا ڈالا

شمالی شام میں دہشتگردوں کیخلاف آپریشن میں پیش قدمی کے دوران ترک فوج نے غلطی سے امریکی چوکی کو نشانہ بنا ڈالا۔

شام میں تعینات امریکی فوج کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ترک فوج کی گولہ باری کی زد میں امریکی فوج کی ایک چوکی بھی آگئی تاہم گولہ باری کے نتیجے میں امریکی فوج کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔پینٹاگون کے مطابق اس واقعے پر ترک فوج کو متنبہ بھی کیا گیا ہے۔

چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف آرمی  جنرل  اے میلی نے کہا ہے کہ امریکی فوج  کی اپنے ترک ہم منصبوں کے ساتھ شمالی شام میں جاری’آپریشن امنِ بہار‘ میں بھرپور ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور ترک فوج  شام میں امریکی فوج کے مقامات  کے بارے میں پوری طرح باخبر ہے ۔

دوسری جانب ترک افواج نے امریکی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ شام میں کارروائی کے دوران امريکی چوکی ان کا ہدف نہيں تھا بلکہ گولہ باری امریکی چوکی کے قریب کرد جنگجوؤں کے ايک عسکری ہدف پر کی گئی تھی جہاں سے گزشتہ روز کرد جنگجوؤں نے ترک پولیس اسٹیشن پر میزائل داغے تھے۔

11 اکتوبر

پاکستان کا شام پر ترک مؤقف کی حمایت کا اعلان

وزیراعظم عمران خان نے ترک صدر رجب طیب اردوان کو ٹیلی فون کرکے شام کے معاملے پر ان کے موقف کی حمایت کردی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو ٹیلی فون کیا جس میں خطے کی حالیہ صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا۔ وزیراعظم نے شام کے معاملے پر ترک صدر کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ پاکستان ترکی کے موقف کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ترکی کو درپیش چیلنجز اور خطرات کو سمجھتا ہے لہذا دہشت گردی کے خلاف ترکی کی مکمل حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے بھی دہشت گردی کے باعث 70 ہزار جانوں کا نقصان برداشت کیا۔ وزیراعظم عمران خان نےکہا کہ وہ ترکی کی شام کے مسئلے کے حل، خطے میں امن وا ستحکام کی کوششوں میں کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام آپ کے دورے اور شاندار استقبال کے منتظر ہیں۔

سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ

پاکستان کی جانب سے ترکی  کی حمایت کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر بھی بھرپور حمایتی مہم شروع ہوگئی۔پاکستان  میں ٹوئٹر پر ’ترکی اکیلا نہیں‘ کا ٹرینڈ بن گیا۔

ناروے نے ترکی کو ہتھیاروں کی برآمد روک دی

ناروے نے ترکی کے لیے ہتھیاروں کی کسی بھی نئی کھیپ کی برآمد روکنے کا اعلان کیا ہے۔

ناروے نے یہ اعلان شام کے شمال مشرق میں ترکی کے فوجی آپریشن کے تناظر میں کیا۔ ناروے کی وزیر خارجہ این ایرک سین سوریڈے نے اے ایف پی کو بھیجی گئی ایک ای میل میں کہا کہ موجودہ پیچیدہ اور تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر وزارت خارجہ حفظ ماتقدم کے طور پر ترکی کو دفاعی سازوسامان یا کثیرالمقاصد استعمال ہونے والے مواد کی برآمدات کے کسی نئے مطالبے سے نہیں نمٹے گی۔

انہوں نے واضح کیا کہ ان کی وزارت ترکی کو اسلحہ برآمد کرنے کے لیے پہلے سے جاری کردہ اجازت ناموں پر بھی نظرثانی کرے گی۔ فن لینڈ نے بھی ترکی یا شام میں جاری لڑائی میں شریک کسی اور ملک کو اپنا تمام نیا اسلحہ برآمد نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ

امریکی ایوان نمایندگان کے ریپبلکن ارکان نے شام میں کرد ملیشیاؤں کے خلاف کارروائی کے جواب میں ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے ایک قرار داد لانے کا عندیہ دیا ہے۔

ریپبلکن رکن ریپ لز چینی نے ایک بیان میں کہا کہ صدر رجب طیب اردوان اور ان کی حکومت کو شمالی شام میں ہمارے کرد اتحادیوں پر بے رحمانہ حملے کی وجہ سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ٹرمپ ثالث بننے کے خواہاں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی اور کرد ملیشیاؤں کے درمیان تنازع کے حل میں ثالثی کرانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ واشنگٹن میں گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ان کے خیال میں امریکا ایسا کر سکتا ہے۔

سلامتی کونسل کے5 ارکان کا آپریشن بند کرنے کا مطالبہ

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن 5 یورپی ممالک نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر شام میں کرد ملیشیاؤں کے خلاف جاری کارروائی روک دے۔ اس حوالے سے سلامتی کونسل کے 2 مستقل ارکان فرانس اور برطانیہ اور 3 غیر مستقل رکن ممالک جرمنی، بلجیم اور پولینڈ نے جمعرات کو ایک ہنگامی اجلاس کے بعد مشترکہ بیان جاری کیا۔

10 اکتوبر

ہنگری کی مشروط حمایت

یورپی ملک ہنگری نے ترکی کے شام میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کی مشروط حمایت کردی۔

ہنگری کے وزیراعظم کے چیف آف اسٹاف جرجیلی گلیاس  نے کہا ہے کہ ترکی نے حال ہی میں شمالی شام  میں آپریشن شروع کیا ہے جس کی ہمیں حمایت کرنی چاہیے، اس فوجی کارروائی کا مقصد قریباً 40 لاکھ شامی مہاجرین کو ان کے اپنے ملک میں بحفاظت واپسی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہنگری نے یورپی یونین کے اس اعلامیے کا دوبارہ جائزہ لیا ہے جس میں دیگر ممالک کی جانب سے ترک آپریشن کی مذمت کی گئی ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ ان کا ملک ترکی کے اس اقدام کو سپورٹ کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ  ان کا ملک دوممالک کے درمیان تنازع کو حل کرنے کے لیے جنگ کا راستہ اختیار کرنے کو تسلیم نہیں کرتا لیکن ترکی نے مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیجنے کے لیے فوجی کارروائی کا آغاز کیا ہے تو ہمیں اس اقدام کی حمایت کرنی چاہیے۔

دریں اثناء ہنگری کے وزیر خارجہ نے  بھی زور دیا کہ  تارکین وطن کی یورپ میں داخلے کی نئی لہر کو روکنے کے لیے یورپی یونین کو ترکی سے بات کرنی چاہیے اور مذاکرات کا راستہ اختیار کر کے مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔

چھتیس لاکھ مہاجرین یورپ بھیج دیں گے،اردوان

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے شام میں ’’محفوظ علاقہ‘‘ قائم کرنے کے لیے کرد علاحدگی پسند عسکری تنظیموں کے خلاف شروع کی گئی فوجی کارروائی پر مختلف ممالک کی تنقید مسترد کردی ہے۔

تُرک ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر اردوان نے جمعرات کے روز استنبول میں اپنی حکمراں جماعت ’’انصاف و ترقی پارٹی‘‘ کے جلسے سے خطاب میں یورپی یونین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک نے ’’منبع امن آپریشن‘‘ کو قبضے کی کوشش قرار دیا، تو ہمارا کام مزید آسان ہوجائے گا۔ ہم اپنی سرحدیں کھول دیں گے اور ان کی جانب 36 لاکھ شامی مہاجر بھیج دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین نے شامی مہاجرین کے لیے 3 ارب ڈالر پر مشتمل امداد کی دوسری قسط اب تک ادا نہیں کی، اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور ہمیں ان پر اعتماد نہیں رہا، بتائیں کتنے عرب اور یورپی ممالک نے شامی تارکین وطن کو قبول کیا، ہم جواب کے منتظر ہیں تم جھوٹے ہو، اردوان پر جتنی چاہے تنقید کرو، لیکن ہم اس راستے پر ثابت قدمی سے چلتے رہیں گے۔

سعودیہ اور مصر کو ترک صدر کا جواب

سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ریاض حکومت شمال مشرقی شام میں تُرک فوج کی جارحیت کی مذمت کرتی ہے اور اسے شام میں ترکی کی فوجی مداخلت وعرب ملک کی وحدت، آزادی اور خودمختاری کی صریح خلاف ورزی سمجھتی ہے، تاہم صدر اردوان نے سعودی عرب کو بھی جواب دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب منبع امن آپریشن پر تنقید کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکے۔ انہوں نے سوال کیا کہ یمن کو اس حال پر کس نے پہنچایا ہے۔ کیا وہاں ہزاروں شہری نہیں مارے گئے۔

صدر اردوان نے یہ بھی کہا کہ خاص طور پر مصر میں حکومتی سربراہ کو ایک لفظ بھی بولنے کا حق نہیں۔ وہ اپنے ملک میں جمہوریت کا قاتل ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=2hT0Xij4twg

ترکی کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کیوں کر رہا ہے؟

ترکی نے 1998 میں شام کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر شام نے اپنی سرزمین سے ترکی کے کرد باغی رہنما عبداللہ اوجلان کو بے دخل اور ترک کرد رہنمائوں کی مدد کرنا بند نہیں کی تو ترکی فوجی کارروائی کرے گا۔

 اس دھمکی کے بعد ترکی کے اس وقت کے صدر سلیمان دیمرل اور سابق  شامی صدر حافظ الاسد کے درمیان ترکی کے شہر  آدنا میں معاہدہ طے پایا تھا جس میں دونوں ممالک نے مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے نکالنے پر اتفاق کیا تھا۔

ترکی شام کے شمالی علاقے کو محفوظ بنا کرترکی میں موجود 20 لاکھ شامی مہاجرین کو وہاں ٹھہرانا چاہتا ہے۔اس علاقے میں موجود شامی کرد ملیشیا (وائے پی جی)جسے امریکی حمایت بھی حاصل رہی ہے کو ترکی دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے اور  اسے  علیحدگی پسند  اسیر کرد رہنما عبداللہ اوجلان کی سیاسی جماعت کردش ورکر ز پارٹی کا عسکری ونگ قرار دیتا ہے۔

2014 میں امریکی صدر براک اوباما نے پہلی مرتبہ داعش کے خلاف شام میں فضائی آپریشن شروع کیا اور 2015 کے اواخر میں اپنے 50 فوجی بھیج کر شامی خانہ جنگی میں باضابطہ طور پر حصہ لیا۔امریکی فوجی داعش کے خلاف لڑنے کیلئے شامی کردش ملیشیا اور جنگجوں کو تربیت دیتے رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں شام میں کرد ملیشیا کے خلاف آپریشن کے ترکی کے فیصلے کے بعد امریکا نے اپنی فوجیں شام ترک سرحدی علاقے سے پیچھے ہٹانیکا اعلان کیا تھا جس پر کرد ملیشیا نے امریکا پر پِیٹھ میں چھرا گھونپنے کا الزام عائد کیاتھا۔

ترکی نے تازہ اقدام سے ایک روز قبل ہی شامی عراقی سرحد پر کارروائی کی تھی اور اس حوالے سے بتایا تھا کہ اس کا مقصد کُرد فورسز کو شام کے شمالی حصے کی طرف جانے سے روکنا تھا، جہاں وہ اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش میں ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اِردوان کے کمیونی کیشن ڈائریکٹر فخرتن التون نے کرد ملیشیا وائی پی جی کے جنگجوؤں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ملیشیا سے الگ ہو جائیں ورنہ انقرہ انہیں داعش کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ بننے نہیں دے گی۔

09 اکتوبر

ایران نے ترکی کو خبر دار کردیا

یرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے ترک ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا ہے کہ ایران شام میں ترک ملٹری آپریشن کی مخالفت کرتاہے،ترکی شام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کااحترام کرے۔

ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیر خارجہ نے شام میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ضرورت ،استحکام اور سلامتی کے قیام پر بھی زور دیا اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مسائل کے حل کیلئے سب سے بہترین راستہ آدرنہ معاہدہ ہے۔

واضح رہے ترکی نے 1998 میں شام کو دھمکی دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر شام نے اپنی سرزمین سے ترکی کے کرد باغی رہنما عبداللہ اوجلان کو بے دخل اور ترک کرد رہنمائوں کی مدد کرنا بند نہیں کی تو ترکی فوجی کارروائی کرے گا۔

دوسری جانب ترکی نے شام کے شمال مشرقی علاقے میں امریکی حمایت یافتہ کردباغیوں کے خلاف بڑے فوجی آپریشن کی تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔غیرملکی خبرایجنسیوں کے مطابق ترکی نے کردباغیوں کے خلاف آپریشن کے لیے اپنا بھاری ساز و سامان شام کے سرحدی علاقے میں منتقل کردیا ہے۔

کئی دیہات کرد جنگجوؤں سے آزاد

تُرک فوج اور شامی مزاحمت کاروں نے کئی دیہات کرد جنگجوؤں سے آزاد کرالیے، جب کہ ترکی پر کردوں کی گولہ باری سے 6 شہری جاں بحق اور 13 زخمی ہوئے۔

ہزاروں شہری بے گھر

شمالی شام میں کردوں کے خلاف ترکی کی فوجی کارروائی میں اب تک 80 ہزار سے زیادہ شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔

انسانی حقوق کی شامی تنظیم نے بتایا ہے کہ بدھ کے روز شروع ہونے والے ترک آپریشن  کے باعث 11 دیہات اور علاقے کے 80 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ مرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

خبر رساں ایجنسی کے مطابق ترکی بمباری کا زیادہ تر نشانہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیرات ہیں جو جنوب مشرقی صوبے اور  شمالی صوبے رقہ کے علاقے میں موجود ہیں ،بمباری کا زیادہ تر نشانہ  واٹر اسٹیشنز ، بجلی گھر، ڈیم ، آئل فیلڈ اور رہائشی علاقے ہیں۔

08 اکتوبر

ٹرمپ نے ترک معیشت تباہ کرنے کی دھمکی دے دی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد اگر ترکی نے حدود کو پامال کیا تو امریکا ترکی کی معیشت پر حملہ کرے گا۔

امریکی صدر نے اپنے نیٹو کے سب سے بڑے اتحادی ترکی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے دیں۔صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ“جیسا کہ میں پہلے بھی دوٹوک الفاظ میں کہہ چکا ہوں اور ایک بار پھر واضح طور پر دہرا رہا ہوں کہ اگر ترکی نے کچھ ایسا کیا جو کہ میرے خیالات اور تصورات سے مطابقت نہیں رکھتا تو میں ایسےحدود سے تجاوز سمجھوں گا اور میں ترکی کی معیشت کو تباہ و برباد کر دوں گا جیسا کہ میں پہلے بھی کر چکا ہوں”۔

07 اکتوبر

امریکا ساتھ چھوڑ گیا، ترک آپریشن کے اعلان پرشام سے امریکی فوج کا انخلاشروع

ترکی کی جانب سے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیے جانے والے”کردجنگجوؤں” اور داعش کے خلاف شمالی شام میں طویل مدتی آپریشن کے اعلان کے بعدسرحد پر موجود امریکی فوج نے انخلا شروع کردیا ہے۔

دنیا بھر میں دہشتگرد قرار دی گئی شدت پسند تنظیم “داعش” کے خلاف لڑنے کے لیے امریکا نے اپنے نیٹو کے سب سے بڑے اتحادی ترکی کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ترکی یہ جنگ تنہا لڑنے کے لیے پرپوری طرح تیار ہے۔

امریکا کا داعش کے خلاف جنگ میں اپنے سب سے بڑی اتحادی کا ساتھ نہ دینا دراصل واشنگٹن کی شدت پسندی کے خاتمے کی پالیسی سے متعلق بڑی تبدیلی ہے ، امریکا نے ترکی سے اس جنگ میں شامل ہونے اور اپنی کسی بھی معاونت سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترک فوج کے آپریشن کی صورت میں وہ اپنے فوجیوں کو متعلقہ علاقوں سے واپس بلا لے گا۔

ترک صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے شمالی شام میں طویل مدتی آپریشن شروع کرنے کے اعلان کے بعد امریکا نے اپنے فوجیوں کا انخلا شروع کردیا ہے اور وہ سرحد پر متصل اپنے دو اڈوں سے فوجی واپس بلا رہا ہے تاہم یہ ابھی واضح نہیں کہ امریکا اپنے 1 ہزار فوجی واپس بلائے گا یہ شام سے مکمل طور پر انخلا کرے گا۔

06 اکتوبر

ترکی کا شام میں کرد باغیوں کیخلاف بڑے فوجی آپریشن کا اعلان

ترکی نے شام کے شمال مشرقی حصے میں کرد باغیوں کے خلاف بڑے فوجی آپریشن کا اعلان کردیا ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ کرد باغیوں کے خلاف بڑے آپریشن کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ آپریشن کا آغاز آج یا کل سے کریں گے۔ تاہم آپریشن کے لیے تمام متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

رجب طیب اردوان نے مزید کہا ہے کہ اب وقت آپہنچا ہے کہ ہم شام کے شمال مشرقی حصے کو دہشت گروں سے پاک کرکے وہاں امن قائم کریں۔

دوسری جانب کرد باغی گروپ وائی پی جے نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ہم استحکام چاہتے ہیں مگر ترکی کی جانب سے کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دیں گے۔

واضح رہے کہ ترکی امریکا پر کرد باغیوں کو اس کی سرحد سے ہٹانے کے لیے اقدامات نہ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔