کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی

321

جب ہم جوان ہوئے تو اپنے بڑوں سے پوچھا کرتے تھے کہ انہیں یہ احساس کیوں نہیں ہوا کہ بنگلادیش آزاد ہورہا۔ آپ نے اس وقت کوئی کردار کیوں ادا نہیں کیا؟ اکثر بزرگ بتاتے تھے کہ مشرقی پاکستان کی آزادی کے چند دن پہلے پاکستان کے تمام اخبارات مشرقی پاکستان میں فوج کے مکمل کنٹرول کی خبریں لگاتے رہے۔ لہٰذا جس روز یہ خبر عام ہوئی کہ مشرقی پاکستان بنگلاادیش بن گیا ہے تو کچھ لوگ صدمے سے جان تک گنوا بیٹھے تھے۔ آج ہم اپنی آنکھوں سے کشمیر کے معاملے میں جس بے حسی کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں وہ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک کے اندر صورت حال یہ ہے کہ عام لوگ تک محسوس کرچکے ہیں کہ حکومت کس کے ہاتھ میں ہے۔ تاجر رہنما، چیف آف آرمی اسٹاف سے اپنے مسائل کے حل اور کاروبار نہ چلنے کی شکایت کے لیے ملاقاتیں کرتے ہیں۔دوسری طرف کچھ لوگ ڈراتے ہیں کہ اب کی بار مارشل لا لگا تو پندرہ بیس سال تو گئے۔ لہٰذا چند سیاسی جماعتیں اسی لیے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں شرکت سے کترا رہی ہیں۔ مگر حقیقت حال یہ ہے کہ اگر مارشل لا لگا تو تاریخ کا سب سے زیادہ غیر مقبول مارشل لاء ہوگا اور مارشل لا نہ لگنے کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ مارشل لا گا کر کشمیر کے نقصان کی ذمے داری وہ اپنے سربراہ راست کیوں لیں گے؟ دوسری طرف عوام کی بات کی جائے تو عوام روزمرہ کی ضروریات زندگی کے حصول میں اس قدر غرق ہوچکے ہیں کہ وہ کسی تحریک میں شامل ہو کر اپنا وقتی نقصان کروانے سے بھاگتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے روشن اور محفوظ مستقبل کے لیے کوئی اور قربانی دے۔ اسی عوام میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تاریخ کے اس نازک موڑ پر جب کشمیر ڈوب رہا ہے تب کنارے کھڑے پاک، سری لنکا کرکٹ سیریز دیکھ رہے تھے۔
عہد جدید نے عجیب پیمانے بنائے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے ان پر جو کہتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں ہم کرکٹ کھیل کر دنیا کو بتائیں گے کہ ہر حال
میں جینا جانتے ہیں۔ دنیا میں اس سے زیادہ مذاق کیا ہوگا جو ہم اپنے ساتھ کررہے ہیں۔ ہم خود کو دھوکا دے رہے ہیں، کیا زندہ قومیں ایسی ہوتی ہیں؟ عمران خان، مولانا کو کہتے ہیں کشمیر کی نازک صورت حال کے سبب دھرنا نہ دیں مگر اس نازک صورت حال کے دوران قومی کھیلوں کے مقابلے منعقد ہورہے ہیں۔ اگر ہمارے گھر سے کوئی اغوا ہوجائے یا کسی کی موت ہوجائے تو کیا ہم کھیل، کھیل سکتے ہیں؟ اور دلیل یہ دیں کہ ہم کھیل اس لیے کھیل رہے ہیں تا کہ محلے والوں اور ہمارے دشمنوں کو معلوم ہوسکے کہ ہم کتنے سخت جان ہیں، کتنے مضبوط ہیں؟ اس دلیل کو بے شرمی کے سوا آپ کیا نام دے سکتے ہیں؟ وہ جو کہتے ہیں کشمیر میں بہنوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں، بچے اغوا کیے جارہے ہیں، بوڑھوں کو بھی مارا جارہا ہے، کئی ماہ سے کرفیو ہے، لوگوں کے پاس کھانے کے لیے راشن نہیں رہا، بیماروں کے پاس دوائیں نہیں رہیں، مردوں کے جنازے اُٹھانے کے لیے کوئی نہیں رہا۔ ان سے میرا سوال ہے کہ اگر کشمیر ان کی شہ رگ تھا اور کشمیر کے حوالے سے جو کچھ بیان کیا
جاتا ہے وہ سب ہورہا ہے تو ان کو شرم نہیں آتی کہ وہ اس موقع پر کرکٹ کھیل رہے تھے؟ یہ وقت قوم میں جذبہ جہاد جگانے کا تھا یا قوم کو کرکٹ اسٹیڈیم میں جمع کرنے کا؟ ہماری ان حرکتوں کو دیکھ کر کون سا دشمن ہم سے لرزے گا؟ کون سا دشمن ہم سے ڈرے گا؟ دشمن سوچے گا کہ جس قوم کو تفریحی کا اس قدر شوق ہو کہ وہ اپنے بہن بھائیوںکے مرنے پر بھی کھیل میں مگن ہوسکتے ہوں ان سے کمزور دشمن کون ہوگا؟ اور ہماری عورتوں، مردوں، بچوں، بوڑھوں کو کرکٹ اسٹیڈیم میں چھکے، چوکے، آئوٹ پر ناچتے دیکھ کر کشمیری، جن کے گھروں میں فاقے ہورہے ہیں جن کے گھروں میں ایک ساتھ کئی جنازے اُٹھائے جارہے ہیں وہ کیا سوچتے ہوں گے؟ خود پر رکھ کر سوچیں کہ خدا نہ کرے لیکن اگر پاکستان پر امریکا کا قبضہ ہو وہاں کشمیر جیسے مظالم ڈھائے جاتے ہوں اور کشمیر ایک آزاد ریاست ہو وہاں کے لوگ ہم پر مظالم کے عروج کے دنوں میں بھی کھیل میں مگن ہوں تو ہم ان کے لیے کیا گفتگو کریں گے؟ بس جو گفتگو آپ کی ان کے لیے ہوگی ایسے حالات میں وہی گفتگو آپ اپنے لیے سوچ لیں۔
خدا کے واسطے جن کے ہاتھوں میں اصل اختیار، اقتدار، طاقت ہے وہ اس غریب قوم سے مزید کتنا مذاق کرنا چاہتے ہیں؟ یکجہتی کے اظہار کے لیے دنیا میں کھیل گود کے سوا بھی سو راستے، طریقے ہوتے ہیں۔ ہماری حکومت کی بے حیائی، بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ وہ کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے جب سرکاری سرپرستی میں پروگرام منعقد کرتی ہے تو اس میں بھانڈ، میراثیوں اور طوائفوں کو خصوصی دعوت دے کر ان سے نغمے گواتی ہے، کیا ان حرکتوں سے اللہ پاک خوش ہوں گے؟ کیا مصیبت میں نبی اکرمؐ کی سنت ہمیں یاد نہیں؟ نبی کریمؐ نے غزوہ بدر سے ایک رات قبل تمام رات عبادت میں گزاری تھی، کیا ان کے اُمتیوں کو مصیبت کی اس گھڑی میں جب کہ ہمارے ہاں زلزلہ بھی آیا ہے فسق وفجور، رنگ و موسیقی اور وقت بربادی کی محفلوں کا انعقاد، زمین پر خدا کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف نہیں؟ ہماری حکومت اور ہمارے بڑوں کی کشمیر کے لیے سنجیدگی کسی مذاق سے کم ہے کیا؟ منہ سے کسی کو بھائی، بہن کہنا اور دل سے کسی کو بھائی بہن تسلیم کرنا دو باتیں ہیں۔ کشمیری آپ کے بھائی ہیں تو کس منہ سے آپ کھیل تماشوں میں تمام ریاستی طاقت کے ساتھ مشغول ہیں؟ آپ کا زمین پر کون سا کام ہے جو خدا کے غضب اور غصے کو کم کرنے والا ہے؟ آپ آزاد کشمیر گئے، تو ساتھ میں طوائفیں اور میراثی لے گئے۔ ایک اسلامی ریاست میں سرکار اس طبقے کی سرپرستی کرسکتی ہے؟ آپ کو شرم نہیں آتی کہ آپ کہتے ہیں ہم ریاست مدینہ قائم کریں گے۔ آپ اور آپ کے حواریوں اور سہولت کاروں کا ریاست مدینہ سے کیا تعلق؟ کل آپ نے مظفر آباد میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ میں اقوام متحدہ کے اجلاس سے واپس آجائو میں خود آپ کے ساتھ مل کر کنٹرول لائن کی طرف مارچ کروں گا۔ آج آپ حسب عادت اس بات سے مکر گئے۔ آپ ٹیپو سلطان کا نام لیتے ہیں وہ آپ کی طرح یوٹرن لے لیتا تو آج دنیا اس کی عزت نہ کر رہی ہوتی۔ آپ کا ٹیپو سلطان سے کیا لینا دینا؟۔ خدا کے لیے اللہ کے عذاب سے ڈریں اس کی نشانیوں بے موسم کی بارشوں اور زلزلوں سے سبق سیکھیں توبہ کریں تا کہ آسمان سے آپ کے لیے خیر نازل ہو اور خدارا‘ اپنی تفریحی سرگرمیوں کو مزید بڑھا کر مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر نمک مت چھڑکیں۔