مسئلہ کشمیر، قائدانہ کردار کی ضرورت

447

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کے خاتمے کا اعلان 5 اگست کو کیا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کردیا تھا جو 70 روز گزرنے کے باوجود تک جاری ہے ۔ اسے کسی بھی آبادی کو بلا خوراک کے جیل میں بند کرنے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس عرصے میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر رکھ دیے ہیں ۔ کوئی بھی عاقل اور بالغ شخص سمجھ سکتا ہے کہ جب کسی علاقے کا محاصرہ 70 روز سے جاری ہو اور وہاں پر روز بھارتی فوج کسی بھی گھر پر ٹوٹ پڑے ، اس کے نوجوانوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جائے اور خواتین کی منظم آبرو ریزی کی جائے تو اس علاقے میں بسنے والے لوگوں کی کیا حالت ہوگی ۔ اس تمام صورتحال کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی بہت کچھ سمجھانے کے لیے کافی ہے ۔ اس کا پہلا سبق تو یہ ہے کہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات اور دوسرا سبق بھی یہی ہے کہ اس دنیا میں طاقت کا اصول رائج ہے اور تیسرا سبق بھی یہی ہے کہ جو لوگ اپنا دفاع نہیں کرسکتے ، وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ اس کے باوجود پاکستانی حکومت کا رویہ ناقابل فہم ہے کہ وہ اب بھی عالمی برادری سے توقع لگائے بیٹھی ہے کہ عالمی برادری یا اس کی انجمن اقوام متحدہ اس ضمن میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کرے گی ۔ 70 دن گزر گئے ، اب بھی عمران خان ان ہی خیالوں میں گم ہیں ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے حکومت کو جگانے کی کوشش کی ہے ۔ اتوار کو حیدرآباد میں جماعت اسلامی کے تحت آزادی کشمیر مارچ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عمران خان کو ان کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریر کے سحرسے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ سراج الحق نے حکومت سے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب مزید نہیں دیکھنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی اچھی تقریر کا دنیا پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ دنیا میں طاقتور ہی کی مانی جاتی ہے ، اس کی مثال بھی سراج الحق نے پیش کی کہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو عجلت میں علیحدہ کرنے والی اقوام متحدہ کو 72 برسوں سے کشمیر میں بہتا خون نظر نہیں آرہا۔ سراج الحق نے حکومت کو بروقت خبردار کیا کہ کشمیر کی آزادی کی جنگ پاکستان کی بقاء ، سالمیت اور تحفظ کی جنگ ہے اور اگر حکمرانوں نے یہ لڑائی سری نگر میں نہ لڑی تو پھر یہ جنگ مظفرآباد اور اسلام آباد میں لڑنا پڑے گی ۔ سراج الحق نے حکومت کو خبردار کرکے اپنا کام کردیا ، اسی طرح جماعت اسلامی پورے ملک میں آزادی کشمیر مارچ کرکے عوام کی ترجمانی کا کام کررہی ہے مگر حکومت ابھی تک اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے مکمل غافل ہے ۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے تحت آزاد کشمیر کے باسی مقبوضہ کشمیر میں اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے منتظر ہیں ۔ ان کے قافلے کو آزاد کشمیر کی حکومت نے بہ مشکل چکوٹھی سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر روکا ہوا ہے ۔ عمران خان آخر کب تک اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریر کے سحر میں گرفتار رہیں گے اور عملی اقدامات کے بجائے اب کی مار تو بتاؤں کی گردان کرتے رہیں گے ۔ عمران خان کا ایک ہی بیانیہ ہے کہ اگر بھارت نے آزاد کشمیر یا پاکستان پر حملہ کیا تو اسے مزا چکھادیا جائے گا ۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ عمران خان اور ان کے سرپرست مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہی نہیں سمجھتے ، اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ اس بارے میں ہم اس سے قبل بھی بارہا لکھ چکے ہیں کہ بھارت آخر کیوں پاکستان یا آزاد کشمیر پر فی الوقت حملہ آور ہوگا ۔ اس کا اصل مقصد پورا ہوگیا اور وہ بالآخر مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرگیا ۔ اب 31 اکتوبر کو وہ اس قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے گا اور پاکستانی اس کے جواب میں محض عمران خان کی دوڑ دھوپ ہی دیکھتے رہیں گے ۔ ایک مرتبہ پھر سے عرض ہے کہ اگر عمران خان مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے بارے میں رتی برابر بھی سنجیدہ ہیں تو پہلے قدم کے طور پر بھارت کا معاشی مقاطعہ تو کریں ۔ پاکستان پر سے بھارتی فضائی کمپنیوں کے گزرنے پر پابندی ، بھارت کو افغانستان کے لیے تجارتی راہداری کی سہولت واپس لینے ، بھارت کو قیمتی پاکستانی پہاڑی نمک کی فراہمی کو روکنے جیسے اقدامات تو کریں ۔ فوجی آپشن تو سب سے آخری آپشن ہے ۔ افسوس کی بات تو یہی ہے کہ عمران خان پہلا قدم ہی اٹھانے کو تیار نہیں ہے اور 40 برسوں سے دنیا کی دو سپر پاوروں سے مصروف جنگ رہنے والی اور انہیں شکست سے دوچار کرنے والی پاکستانی قوم بھارت کو سبق سکھانے کا مطالبہ کررہی ہے ۔ دنیا جانتی ہے کہ افغانستان میں روس اور امریکا کا مقابلہ کسی باقاعدہ فوج نے نہیں کیا بلکہ یہ جذبہ ایمانی سے سرشار لوگ تھے جنہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں دنیا کی طاقتور ترین افواج کو خاک چٹادی ۔ اس بہترین سرمائے کے ہوتے ہوئے عمران خان کی اگر بھارتی نیتاؤں کے سامنے گھگھی بندھی ہوئی ہے اور وہ معاشی مقاطعہ جیسا پہلا قدم بھی اٹھانے کو تیار نہیں تو اس پر انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھا جاسکتا ہے ۔ تقسیم پاکستان کے وقت بھی پاکستان کے کئی اہم علاقے بھارت کو بلاجواز دے دیے گئے ، اس کے بعد 1971 میں مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کردیا گیا اور اب 2019 میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا باقاعدہ حصہ بنادیا گیا ہے اور عمران خان محض کوسنوں اور تقریروں سے مسئلہ حل کرنے کی امید کیے بیٹھے ہیں ۔ انہیں وقت کی آواز سننی بھی چاہیے اور ملک کی آزادی کے لیے قائدانہ کردار بھی ادا کرنا چاہیے ۔ اگر وہ اس قائدانہ کردار کو ادا کرنے کا اپنے آپ کو اہل نہیں پاتے تو بہتر ہے کہ وہ خود کسی دوسرے کے لیے یہ جگہ خالی کردیں ۔