وارداتوں میں اضافہ، بے روزگاری؟

360

سندھ کے وزیرا علیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ انہیں آئی جی سندھ نے بتایا کہ صوبے میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا ہے ۔ سید مراد علی شاہ صوبے کے حاکم اعلیٰ ہیں اور جب انہیں اس امر کا علم ہو ہی گیا ہے کہ صوبے میں معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اس کا علاج بھی بروقت کریں نہ کہ محض بیان دے کر بیٹھ جائیں ۔ اصولی طور پر تو انہیں اس کا پہلے سے علم ہونا چاہیے تھا کہ ان کے زیر انتظام صوبے میں معاشی حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں اور بیروزگاری نے سرطان کی صورت اختیار کرلی ہے ۔ پھر معاشی حالات کی بہتری کے لیے انہیں فوری اقدامات کرنے چاہییں تھے ۔ ہر چیز وفاقی حکومت کی منشاء پر نہیں ہے ۔ صوبے میں بے شمار معاملات صوبائی حکومت کے ہاتھ میں ہیں جیسے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مطلق طور پر صوبائی حکومت ہی کے ماتحت ہے ۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کی کرپشن اور چشم پوشی کی بناء پر سیکڑوں ارب روپے کی بلڈنگیں صرف کراچی میں کھڑی ہیں ۔ا گر انہیں ریگولرائز کردیا جائے تو ایک جانب شہر میں دوبارہ سے تعمیراتی سرگرمیاں شروع ہوسکتی ہیں تو دوسری جانب حکومت کو اربوں روپے ٹیکس اور جرمانے کی مد میں وصول ہوسکتے ہیں جس سے سندھ حکومت مزید ترقیاتی کام شروع کرسکتی ہے ۔ اسی طرح سندھ میں ہر محکمے میں کرپشن کا جن بے قابو ہوچکا ہے ۔ اگر کرپشن ہی کوکنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے تو دوبارہ سے شہر میں معاشی سرگرمیاں بحال ہوسکتی ہیں ۔ ایک بات اور سمجھنے کی ہے کہ یہ محض بیروزگاری نہیں ہے جس کی وجہ سے اسٹریٹ کرائم کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے ۔ گرفتار شدگان پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان میں رینجرز وپولیس اہلکار اور ان کے بچے بھی شامل ہیں جنہیں قانون کا کوئی خوف نہیں ہے ۔ آئی جی سندھ نے بڑھتی ہوئی وارداتوں کو بیروزگاری کے کھاتے میں ڈال کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے تو وزیر اعلیٰ سندھ نے اسے آگے بڑھا کر اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی کی ہے ۔