پاکستان کی معاشی حالت مزید خراب ہوسکتی ہے، ورلڈ بینک

252

 

اسلام آباد( خبرایجنسیاں+مانیٹرنگ ڈیسک) ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ آئندہ چند برس میں پاکستان کی معاشی حالت مزید خراب ہوسکتی ہے۔ عالمیبینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے موجودہ معاشی عدم استحکام کی بنیادی وجہ بلند تجارتی خسارہ اور زرمبادلہ کے کم ذخائر ہیں۔عالمی بینک نے قرار دیا ہے کہ عمران خان کی حکومت افراط زر،عوامی قرضوں اورمالی خسارے میں کمی کے اہداف اگلے 2برس میں بھی پورے نہیں کرسکے گی، مہنگائی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے اوررواں سال مہنگائی کی شرح13 فیصد رہنے کا خدشہ ہے، اس عرصے میں پاکستان میں مہنگائی پورے خطے سے ہوگی۔رپورٹ میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار رہے گی۔رپورٹ کے مطابق 2019 ء میں پاکستان کی ترقی کی شرح 3.3 فیصد اور 2020ء میں 2.4 فیصد رہے گی جب کہ 2021ء میں ترقی کی شرح 3 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ ترقی کی شرح میں کمی کی وجہ سخت مانیٹری پالیسی ہے جب کہ ترقی کی شرح میں بہتری پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور عالمی مارکیٹوں میں استحکام سے بھی مشروط
ہے، اس کے علاوہ پاکستان میں ترقی کی شرح میں بہتری سیاسی اور سیکورٹی خطرات میں کمی سے منسلک ہے ۔رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ2001ء کے بعدسے پہلی بارغربت کے خاتمے کے لیے پاکستان کی پیشرفت ’’رک ‘‘ جائے گی اور اس کی وجہ معاشی الجھاؤ ہے۔بیرونی ادائیگیاں پاکستان کے لیے مسئلہ رہیں گی جبکہ معاشی سست روی اور مہنگائی کے باعث غربت میں کمی کا امکان نہیں ہے۔ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ برآمدات میں اضافے سے متعلق فی الحال کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔2019 ء کے دوران خراب مالی کارکردگی کی اہم وجہ محصولات وصولیمیں کمی اور سود کی بلند شرح کی ادائیگیوں کو قرار دیا گیا ہے۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران محصولات کی وصولی میں 6.3 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ پاکستان کا مجموعی مالی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کا تقریبا 8.8 فیصد بنتا ہے جوکہگزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 2.4 فیصد زیادہ ہے۔رپورٹ کے مطابق ملک میں ٹیکس ریونیو جمود کا شکار رہا ہے جب کہ نان ٹیکس ریونیو میں بھی تقریبا 44 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر مرکزی بینک کے منافع میں کمی ریکارڈ کی گئی جس کے باعث حکومت کو کم پیسے منتقل ہوئے۔محصولات وصولیمیں کمی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں عدم استحکام کے باعث پاکستان کا قرضہ جون 2019ء کے اختتام پر مجموعی قومی پیداوار کے 86.5 فی صد تک ریکارڈ کیا گیا۔ یہ قرض گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 73 فیصد تھا۔ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ عالمی منڈیوں میں عدم استحکام اور دنیا بھر میں جاری تجارتی تناؤ پاکستان کی معیشت کے لیے بڑا چیلنج بن سکتے ہیں جب کہ ملک کے اندر مختلف معاشی سیکٹرز میں اصلاحاتی پروگرام کا نفاذ بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی کے اثرات جنوبی ایشیائی ممالک کی معیشتوں پر بھی نمایاں نظر آرہے ہیں۔ اب جنوبی ایشیا کا خطہ دنیا میں تیز رفتار ترقی کرنے والا خطہ نہیں رہا، اس ترقی کی رفتار میں کمی کا عکس ان ممالک کی اسٹاک مارکیٹس معاشی منڈیوں میں جاری تناؤ سے لگایا جا سکتا ہے۔رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پاکستان سمیت تمام ممالک میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ غیر مناسب بارشیں اور عالمی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی قیمتیں ہیں۔