بڑھتی ہوئی وارداتیں، حکومت کہاں ہے؟

284

کراچی ایک مرتبہ پھر سے بدامنی کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔رہزنی کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور یہ جرائم کرنے والے اتنے دیدہ دلیر ہیں کہ مزاحمت کے شبے میں جان سے ماردینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ اسی طرح ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے مختصر اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بھی روز افزوں ہیں ۔ لے دے کر بھتے کی وارداتوں سے کراچی کے شہری محفوظ ہوئے تھے کہ اب پھر سے اس وبا نے کراچی کا رخ کرلیا ہے اور مختلف علاقوں میں لوگوں کو بھتے کی پرچیاں موصول ہونا شروع ہوگئی ہیں ۔ مجرموں کی دیدہ دلیری اور لوٹ مار کی ان وارداتوں کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کراچی ایک شکار گاہ ہے جس میں ہر شکاری کو کھل کر کھیلنے کی اجازت ہے ۔اصولی طور پر تو کراچی میں ان مجرموں کے خلاف باقاعدہ کریک ڈاؤن ہونا چاہیے اور انہیں عبرتناک سزائیں ملنی چاہییں تاکہ شہری محفوظ رہ سکیں مگر پولیس اور دیگر اداروں کی کارکردگی بھی یہیں تک محدود ہے کہ وہ بھی شہریوں سے رشوت کے ضمن میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور الگ بیٹھ جاتے ہیں ۔ کئی وارداتوں میں شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مجرموں کو پکڑا تو پتا چلا کہ ان میں پولیس اور رینجرز کے اہلکار بھی شامل ہیں ۔ گزشتہ دنوںبھینس کالونی میں ڈاکا مارنے والوں نے اپنے آپ کو ایک حساس ایجنسی کا اہلکار بتایا تھا ۔ بعد میں کچھ پتا نہیں چلتا کہ ان اہلکاروں کو کیوں کر چھوڑ دیا گیا اور ا ن کے خلاف مقدمات عدالت میں پیش کیوں نہیں کیے گئے ۔ ریکارڈ کے مطابق اگر کوئی ملزم گرفتار بھی ہوجائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ پہلے بھی گرفتار ہوچکا ہے اور اب ضمانت پر عدالت سے باہر ہے ۔ یہ تو پراسیکیوشن اور عدلیہ کی کمزوری ہے کہ ایسے مقدمات میں گرفتار شدگان کیوں کر ضمانت پر باہر آکر دوبارہ سے ان ہی کارروائیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ کراچی میں پولیس کی ناکامی کے بعد رینجرز کو لایا گیا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ رینجرز جلد ہی حالات کو درست کردے گی جس کے بعد اسے دوبارہ سے سرحدوں کی نگہبانی کے لیے بھیج دیا جائے گا ۔ ابتدائی طور پر رینجرز کو سندھ میں 90 روز کے لیے تعینات کیا گیا تھا ۔ تعیناتی کی اس مد ت میں ہر بار مزید 90 روز کے لیے اضافہ کردیا جاتا ہے ۔ سندھ میں رینجرز کو تعینات کیے ہوئے دس ہزار دن مکمل ہونے والے ہیں مگر کراچی کے حالات جوں کے توں ہیں ۔ رینجرز کے آنے سے بس یہ ہوا کہ تعلیمی اداروں اور مختلف ہاسٹلز میں رینجرز اہلکاروں نے قبضہ کرلیا اور اب اسے مستقل درجہ دے دیا گیا ہے ۔ اب رینجرز بھی تجارتی سرگرمیوں میں شامل ہوتے جارہے ہیں ۔ سندھ کی جھیلوں کے ساتھ ساتھ انہیں کراچی میں ہائیڈرنٹ کے ٹھیکے بھی دے دیے گئے ، یوں قانون نافذ کرنے والا ایک اور ادارہ تجارتی سرگرمیوں میں سرکار کی چھتری میں روز افزوں ترقی کررہا ہے ۔اس کے علاوہ نہ تو کراچی میں مجرموں پر کوئی اثر ہوا اور نہ ہی امن مستقل طور پر بحال ہوسکا ہے ۔ کراچی میں امن کی صورتحال اس سے زیادہ کیا سنگین ہوگی کہ سندھ پولیس کے سربراہ کلیم امام نے کہا ہے کہ ان کے قریبی رشتہ دار جس میں ان کی خوشدامن ، بھائی اور بھتیجے بھی شامل ہیں ، اسٹریٹ کرائم کا شکار ہوچکے ہیں ان کی ساس کے ہاتھ سے چوڑیاں اتروا لی گئیں جس پر بقول ان کے ،گھریلو حالات خراب ہوگئے۔ اس اعتراف کے بعد تو انہیں استعفا دے دینا چاہیے تھا۔ اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ سندھ میں کسی بھی سطح پر کوئی حکومت ہی موجود نہیں ہے ۔ کمشنریٹ ، پولیس ، رینجرز ، ایکسائیز پولیس ، وغیرہ وغیرہ صرف اور صرف عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں ۔ ان کے دفاتر اور تھانوںمیں کوئی سائل چلا جائے تو اس کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے ، اس کے بعد وہ سوچتا ہے کہ نہ ہی آتا تو بہتر ہوتا۔ شہریوں میں عدم تحفظ کے احساس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں نجی گارڈوں کی تعداد پولیس کی تعداد سے زیادہ ہے ۔ شہر میں موجود پولیس اہلکاروں اور رینجرز کی ایک بڑی تعداد صاحب لوگوں کے پروٹوکول اور ان کے ذاتی خدمتگار کے طور پر مصروف ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر وارداتوں کی رپورٹ شہری درج ہی نہیں کرواتے ۔ گاڑیوں کی چوری کی رپورٹ اس لیے درج کروادی جاتی ہے کہ اگر وہ گاڑی کہیں دہشت گردی کی کسی واردات میں استعمال ہوجائے تو ان کی بچت ہوسکے ۔ بازیابی کی تو کسی بھی شہری کو ایک فیصد بھی امید نہیں ہوتی ۔ ہم ارباب اختیار سے کہیں گے کہ کہیں تو وہ اپنی موجودگی کا احساس دلائیں ۔ مجرم کہیں زیر زمین چھپے ہوئے نہیں ہیں بلکہ علی الاعلان دندناتے پھر رہے ہیں ۔ ان کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کریک ڈاؤن کیا جائے اور شہریوں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات جنگی بنیادوں پر کیے جائیں ۔ اگر حکومت اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا نہیں کرسکتی تو بہتر ہوگا کہ عوام سے معذرت کرلی جائے اور کہہ دیا جائے کہ لوگ اپنی حفاظت کا انتظام خود کرلیں ۔ ہر شخص کو آزادانہ ہتھیار رکھنے کی اجازت دی جائے اور اگر کوئی شہری کسی ڈاکو یا مجرم کو گرفتار کروادے یا مار دے تو اسے اس خدمت کے عوض انعام سے نوازا جائے ۔ یہ درست ہے کہ جنگل کے قانون میں طاقتور کمزور کو کھاجاتا ہے مگر جنگل کے قانون میں کم از کم کمزور کو اپنے دفاع کا تو حق ہوتا ہے ۔ شہر کے قانون میں تو مجرم ہر طرح سے آزاد ہیںجبکہ شہریوں کے ہاتھ قانون نے باندھ رکھے ہیں ۔