کے الیکٹرک ہلاکتوں کی ذمے داری قبول کرے

328

کراچی میں حالیہ بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری نہ تو کے الیکٹرک قبول کرنے پر راضی ہے اور نہ ہی اس کا ریگولیٹری ادارہ نیپرا ۔ حالیہ مون سون سیزن میں کراچی میں 50 کے قریب اموات ہوئی تھیں ۔ ابھی اسی پر اہل کراچی سکتے میں تھے کہ ستمبر کے آخری ہفتے میں ہونے والی بارش کے نتیجے میں کراچی کے مزید 6 شہری اپنی جان سے گئے ۔ اس پر مزید ستم یہ کہ کوئی سرکاری محکمہ اس ضمن میںاپنا کردار ادا کرنے کو راضی نہیں ہے ۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ نے اس اہم معاملے کو دیکھنا شروع کیا ہے جس سے امید بندھی ہے کہ کراچی کے شہریوں کو انصاف ملے یا نہ ملے ، کم از کم اس امر کا تعین تو ہوہی جائے گا کہ بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے ہونے والی اموات کا ذمہ دار ہے کون ۔ ان اموات کی ذمہ داری کے بارے میں اشارہ سینیٹ قائمہ کمیٹی کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس کی روداد سے بھی ملتا ہے ۔ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ نیپرا کی ٹیم نے ان واقعات کے بعد جب کراچی کا دورہ کیا تو پتا چلا کہ نئے کنڈکٹرز لگاتے وقت ارتھ سسٹم کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ اجلاس کے ووران کے الیکٹرک کے ذمہ داروں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ نئے کنڈکٹرز لگاتے وقت ارتھ سسٹم کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا بلکہ وہ غیر متعلقہ موضوعات کے ذریعے اصل معاملے کو دبانے کی کوشش کرتے رہے ۔ قائمہ کمیٹی کے رکن سینیٹر اشوک کمار نے درست کہا کہ کے الیکٹرک نے ابھی تک اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا ہے کہ کراچی میں کے الیکٹرک کے کھمبوں میں ارتھ سسٹم کیوں نہیں ہے ۔ اب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے کرنٹ لگنے سے ہونے والی اموات کی وجہ جاننے کے لیے کراچی کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے دوران سینیٹر مرنے والوں کے ورثاء سے بھی ملاقات کریں گے ۔ کراچی میں ہونے والی اموات کے بارے میں سرکاری ادارے کتنے سنجیدہ ہیں ، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ طلب کیے جانے کے باوجود نیپرا کے سربراہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی زحمت ہی نہیں کی اور نہ اس سلسلے میں کمیٹی کو پہلے سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا ۔ نیپرا نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ ان کا کام کے الیکٹرک کی جانب سے کیے جانے والے حفاظتی انتظامات کو دیکھنا یا یقینی بنانا نہیں ہے بلکہ وہ محض نرخوں میں اضافے کی منظوری دیتے ہیں ۔ بجلی کے نرخوںمیں اضافہ ، اووربلنگ اوردیگر چارجز کے نام پر صارفین سے من مانی وصولیاں کراچی میں عام بات ہے جس کی گرفت کرنے والا کوئی نہیں اور کراچی کے شہریوں کو کے الیکٹرک کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کوئی اور ملک ہوتا تو کرنٹ لگنے سے ہونے والی پہلی ہلاکت پر ہی ہر طرف ہاہا کار مچ چکی ہوتی مگر یہ کراچی کا المیہ ہے کہ یہاں پر نہ صرف ایک موسم میں 50 کے قریب اموات ہوئیں بلکہ ستمبر کے آخری ہفتے میںمحض چند منٹوں کے لیے ہونے والی بارشوں میں بھی چھ شہری اپنی جان سے گئے ۔ اس کے باوجود اب تک کے الیکٹرک نے اس کے ذمہ داروں کے خلاف نہ تو کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی کراچی میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے کھمبوں کے ساتھ ارتھ سسٹم کی تنصیب کا کام شروع کیا ہے ۔ اس کے بجائے کے الیکٹرک کے افسران کبھی اس کی ذمہ داری کھمبوں پر بندھے انٹرنیٹ کے کیبل پر ڈالتے ہیں تو کبھی علاقے میں کھڑے ہونے والے پانی پر ۔ کے ای ایس سی کی نجکاری سے قبل بھی شہر میں بارشیں ہوتی تھیں مگر کھمبوں میں کرنٹ آنے کا تصور بھی نہیں تھا ۔ کرنٹ لگنے سے ہونے والی اموات گھروں میں ہونے والی ناقص وائرنگ کے سبب ہوتی تھیں ۔ جب سے کے الیکٹرک وجود میں آئی ہے ، کراچی کے شہریوں کو ایک ایسے آسیب نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے جس میں بجلی کی چھ تا آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ معمول ہے۔ بارش کا پہلا چھینٹا پڑتے ہی بجلی غائب ہوجاتی ہے اوربعض اوقات 48 گھنٹوں کے بعد بھی نہیں آتی ، کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو درست کرنے والے عملے کا کہیں پتا نہیں ہوتا ، زاید بلنگ کرکے ہر ماہ کراچی کے شہریوں سے اربوں روپے اضافی وصول کیے جاتے ہیں ۔ ان سب کے بعد اب بارشوں میں شہریو ں کو ایک نیا خوف اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ خدا نخواستہ ان کا پیارا راستے میں کھڑے پانی میں کے الیکٹرک کی غفلت کی وجہ سے آنے والے کرنٹ سے اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے ۔