(انتخابات‘ سقوط ڈھاکا اور بھٹو کا دورِ حکومت(باب دواز دہم

290

 ۲۴؍ ستمبر ۱۹۷۲ء کو امیر جماعت نے صدر بھٹو کو خطاب کرتے ہوئے ایک بیان میں انہوں نے ملک کو درپیش نازک حالات کا ذکر کرتے ہوئے اپیل کی کہ وہ غصے اور انتقام کی پالیسی پر نظرثانی کریں اور تحمل‘ رواداری‘ فراخ دلی اور عدل و انصاف کی ر اہ اختیار کریں‘ تاکہ اختلافات کی آگ کو بھڑکانے کے بجائے ٹھنڈا کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی تاریخ کے کسی دور میں بھی کسی حکمراں نے عوام پر اتنی سختی نہیں کی جتنی صدر بھٹو کی حکومت نے کی ہے۔ اپنے انتخابی منشور کے برخلاف پاکستان پیپلز پارٹی نے پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام حکومت اختیار کیا ہے۔افسوس کہ ایوب خاں کی طرح بھٹو صاحب بھی اپنی مرضی کی جمہوریت چاہتے ہیں۔
امیر جماعت کے انتخاب کا مرحلہ
گذشتہ کئی برسوں سے اپنی بیماری اور خرابی صحت کی بناء پر مولانا مودودیؒ بار امارت سے فوری طورپر سبکدوش ہونا چاہتے تھے‘ لیکن شوریٰ کے اراکین کے اصرار پر مولانا محترم نے تکلیف کے باوجود اپنی میعاد امارت پوری کی۔ انہوں نے شوریٰ اور اراکین سے درخواست کی کہ بیماری ا ور کمزوری کے سبب وہ امارت کی ذمہ داریاں اٹھانے سے قاصر ہیں‘ اس لیے انہیں منتخب نہ کیا جائے۔
سید مودودی اور بار امارت
انتخاب امارت کا وقت آیا تو مولانا کی جانب سے روزنامہ جسارت (۳۱؍جولائی ۷۲ء) میں ایک اپیل شائع کی گئی‘ جس میں مولانا نے فرمایا تھا کہ ان کی صحت اب اس قابل نہیں رہی ہے کہ وہ بارامارت اٹھاسکیں‘ اس لیے آئندہ انتخابات میں ارکان جماعت انہیں ووٹ نہ دیں۔اس پر مولانا سے عشق رکھنے والے تڑپ اٹھے۔ان کے نزدیک جماعت اسلامی کا مولانا کے بغیر کو ئی تصور ہی نہ تھا۔مصباح الاسلام فاروقی سابق ناظم شعبہ نشرو اشاعت جماعت اسلامی پاکستان ان کی زبان بن گئے۔
جواباً انھوں نے جسارت کے نام ایک خط لکھا‘ جس میں مولانا کی اپیل کو قانونی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جسارت نے اس خط کا شائع کرنا مناسب نہ سمجھا تو فاروقی صاحب نے اس خط کو ایک دو ورقے کی شکل میں شائع کردیا۔اس کا عنوان تھا:’’روزنامہ جسارت کے نام خط جسے شائع کرنے سے انکار کرادیا گیا‘‘۔الفاظ غور طلب ہیں’’ انکار کرادیا گیا‘‘۔فاروقی صاحب کو شبہ تھا کہ ان کے خط کو شائع کرنے سے انکار جسارت کی انتظامیہ نے نہیںبلکہ اوپر کے اشارے سے کیا گیا تھا۔اس خط میں فاروقی صاحب نے مولانا کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
’’میں بڑے ادب و احترام سے مولانا محترم کی خدمت میں ملتمس ہوں کہ اگر یہ جناب کا حکم ہے تو اس خاص مسئلہ میں حکم عدولی پر مجبور ہوں۔میرا ووٹ آپ اور صرف آپ ہی کے حق میں استعمال ہوسکتا ہے‘‘۔
یہ معاملہ بغاوت‘ حکم عدولی یا سرکشی کا نہیں بلکہ اتہائے عشق کا تھا۔ساقی اگر حکم دیتا ہے کہ میری طرف نگاہ اٹھاکر مت دیکھو تو کون مست مئے چشم دیوانہ ہے جو اس کی تعمیل کرے گا۔
مصباح الاسلام فاروقی کو اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے۔صحیح معنوں میں درویش آدمی تھے۔وہ فوج میں کیپٹن تھے‘ جب انھوں نے سروس چھوڑ کر جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ بر سر ملازمت رہتے تو جنرل کے عہدے تک پہنچ جاتے۔ انتہائی با صلاحیت اور لائق تھے۔وہ کام میں اس طرح ڈوبے رہتے کہ شعبہ نشرو اشاعت ان کا گھر بن کر رہ گیا تھا۔ انھوں نے دنیا مولانا ہی سے متاثر ہوکر چھوڑی تھی۔ اب وہ مولانا کا ہٹنا کیسے گوارا کرسکتے تھے؟ انھوں نے خط میں لکھا:’’مولانا کو ووٹ دینا ہمارے ضمیر اور ایمان کا مسئلہ ہے‘ مولانا کسی پارٹی کے چیئر مین نہیں بلکہ داعی حق ہیں‘‘۔
اور داعی حق کا دامن کیسے چھوڑا جاسکتا ہے؟انھوں نے کہا: اگر مولانا بیماری کا عذر پیش کرتے ہیں تو یہ بھی ہمارے لیے بصد عجزو انکسار ناقابل قبول ہے ۔پھر ارکان جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’آپ کے قائد کی زبان‘اس کا مقام‘ اس کا ذہن‘ اس کی بصیرت اس کا ایمان وایقان اور اس کی روحانی قوت غرضیکہ اس کی لیڈر شپ‘ قیادت اور امامت کی خداداد صلاحیت اور صدیوں۔۔۔۔ صدیوں۔۔۔۔۔ کے بعد پیدا ہونے والے اس مرد مومن کی ہمہ پہلو عظمت کی بدولت آپ منزلوں پہ منزلیں‘ برسوں کی بجائے مہینوں اور گھنٹوں میں طے کرتے ہوئے موجودہ دور تک پہنچے‘ جس کا نتیجہ ہے کہ آپ ملک میں ایک بہت بڑی قوت ہیں بلکہ درحقیقت قوت ہیں ہی آپ۔مسلم دنیا کاحال یہ ہے کہ پچھلے دنوں ایک عر ب پاکستان کے ذکر پر تڑپ اٹھا اور چیخ کر بولا: کیسا پاکستان‘ کہاں ہے پاکستان؟ ہم صرف مودودیؒ کے ملک کو جانتے ہیں۔۔۔۔یارو! بہت سی باتیں ہیں۔۔۔ دل بھر آیا۔۔۔۔ تم اس شحص کے بارے میں یہ فیصلہ کرنے بیٹھے ہو کہ تمھارے ووٹوں سے امارت پر فائز رہے یا نہیں؟ کیا دور ہے یہ کہ وہ داعی حق جس نے ساری زندگی دعوت حق دیتے گزار دی آج آپ کے ووٹوںکا محتاج ہو گیا۔۔۔ مولانا مودودیؒ کی قیادت سے جماعت کا مقام اونچا ہوتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کے لیے جماعت اسلامی کی سربراہی وجہ افتخار نہیں‘‘۔
پھر وہ کہتے ہیں:
’’ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ مودودیؒ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے تو بہت ہیں لیکن کیا وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں گے کہ مودودیؒ کی صحت یابی کے لیے انھوں نے کتنی دعاکی؟‘‘
(جاری ہے)