کراچی میں کرنٹ سے اموات، سینیٹ کمیٹی نے کے الیکٹرک سے رپورٹ طلب کرلی

164

اسلام آباد(صباح نیوز) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ نے کراچی میں بجلی کے کرنٹ لگنے سے اموات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کے الیکٹرک سے حفاظتی اقدامات کی رپورٹ بھی طلب کرلی جبکہ کے الیکٹرک کی جانب سے مختلف اوقات میں سندھ حکومت اور کراچی انتظامیہ کو لکھے گئے خطوط کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا گیا ہے ، کمیٹی نے عوامی شکایات سننے کے لیے کراچی کے دورے کا اعلان کردیاہے ، کے الیکٹرک کے سسٹم کا معائنہ کیا جائے گا، عوامی سماعت ہوگی، قائمہ کمیٹی نے ملک بھر میں بجلی کے حادثات سے ہونے والے جانی و املاک کے نقصانات کی تفصیلی رپورٹس طلب کرلی ہیں، قائمہ کمیٹی نے ا سلام آباد کلب کے معاملات پر بھی سب کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ جمعرات کو قائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ بجلی کی پیداوار، تقسیم اور ضابطہ کار سے متعلق الیکٹرک پاور ترمیمی بل2019ء آئندہ اجلاس تک مؤخر کردیا گیا۔ قائمہ کمیٹی نے اجلاس میں چیئرمین نیپرا کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے انہیں انتباہ کیا کہ ان کے خلاف استحقاق قائمہ کمیٹی سے رجوع کیا جاسکتا ہے ، چیئرمین نیپرا کو چاہیے تھاکہ وہ کسی اور مصروفیت کے بجائے پارلیمنٹ کو اہمیت دیتے ،چیئرمین نیپرا نے قائمہ کمیٹی سے اجازت لینا تو دور کی بات آگاہ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی ۔ اس پر نیپرا کے دیگر حکام نے معذرت کی۔ چیئرمین نیپرا کو ہدایت کی گئی ہے کہ آئندہ اجلاس میں اپنی شرکت کو ہرصورت یقینی بنائیں۔ اجلاس کی کارروائی کے دوران کراچی میں کے الیکٹرک کے ناقص انتظامات کے نتیجے میں بجلی کے کرنٹ سے ہونے والی اموات اوردیگر نقصانات کا جائزہ لیا گیا۔ ڈی جی نیپرا نے بتایا کہ ان واقعات سے کے الیکٹرک نے بروقت آگاہ بھی نہیں کیا تھا ، شوکاز نوٹس جاری کیا تو ہم سے رابطہ کیا گیا۔ اس سے قبل نیپرا کی کمیٹی نے کراچی کادورہ کیا، سسٹم کو دیکھا اوریہ بات ثابت ہوئی ہے کہ نئے کنڈکٹرز لگانے کے حوالے سے آرتھ سسٹم کا خیال نہیں رکھا گیا یہی ہمارا بنیادی اعتراض ہے۔ ایسا سسٹم ہونا چاہیے جس سے جان و املاک کا تحفظ یقینی ہو۔ چیئرمین کے الیکٹرک اکرام سہگل نے کہاکہ ا س سال غیر معمولی بارشیں ہوئیں۔ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے حوالے سے کارکردگی کا مساوی پیمانہ مقرر کیا جائے، ڈی جی نیپرا نے کہاکہ ضابطہ کار موجود ہے عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ ہم نے خود تحقیقات شروع کیں ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بجلی کے حوالے سے حادثات کی کمپنیاں بروقت آگاہی نہیں دیتیں۔ کراچی میں اموات کا سلسلہ جاری ہے مون سون میں 35اور 6مزید اموات ہوچکی ہیں۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہاکہ بجلی کاسسٹم عوام کے لیے موت کا سمندر بن گیا ہے بلکہ ایسا بم بن گیا ہے جس کی آئے روز قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ جب اموات ہورہی تھیں کے الیکٹرک کی انتظامیہ کہاں تھی؟ انہوں نے کہاکہ اگر کے الیکٹرک نے تحقیقات کی ہیں تو جوابدہ کس کو بنایا گیا ہے؟۔ ایسا تو اعلیٰ سطح پر ہونا چاہیے۔ چیئرمین کے الیکٹرک اکرام سہگل نے کہاکہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں یقیناً جگہ جگہ ہم سے بھی غلطی ہوئی ہوگی ۔ ڈی جی نیپرا نے اعتراف کیا کہ بجلی کے نقصان کے حوالے سے انہیں میڈیا سے آگاہی ہوتی ہے۔ سینیٹر آشوک کمار نے کہا کہ نیپرا حکام گزشتہ اجلاس میں اعتراف کرچکے ہیں کہ حادثات کے حوالے سے اپ ڈیٹ نہیں دی جاتی تعاون نہیں کیا جاتا۔ چیئرمین کے الیکٹرک نے کہاکہ نیپرا میں عوامی سماعت شروع ہوچکی ہے ۔ اجلاس کے دوران وزیر پارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی نے قائمہ کمیٹی کی چیئرمین نیپرا کی عدم موجودگی پر تشویش کو جائز قرار دیا۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے خبردار کیا کہ استحقاق کمیٹی سے رابطہ کرلیا تو چیئرمین نیپرا کے لیے مصیبت بن جائے گی۔ جبکہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کے الیکٹرک عامر ضیا نے کمیٹی میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ادارے کی جانب سے کراچی میں 15 سے 20 ارب روپے سے زاید کی سرمایہ کاری کی گئی ہے ۔ اکرام سہگل نے کہاکہ کراچی میں کچراکنڈی ہے، نکاسی آب کا نظام نہیں ہے، 6،6 فٹ پانی کھڑا ہوتا ہے،کیبلز، انٹرنیٹ، ٹی وی کی کیبلز ہمارے سسٹم پر لگائی گئی ہیں۔ متواتر بارشیں ہوئیں زیادہ پانی آیا۔چیف ایگزیکٹو آفیسر نے بتایا کہ صرف کراچی میں کام نہیں کررہے ہیںہمارا سسٹم 2 صوبوں سندھ اور بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے۔ کراچی میں ڈھائی کروڑ کی آبادی ہے، کراچی گنجان ترین شہر ہے، کنڈکٹرز کاڈیزائن تبدیل نہیںہوا یہ جدید تاروں کے گچھوں پر ضرور مشتمل ہے اور دنیا بھر میں اے بی سی کنڈکٹرز سے تبدیل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 39اموات میں سے نیپرا نے 19 کا ہمیں ذمے دار ٹھیرایا ہے ہم نے داخلی طورپر تحقیقات کیں ایک موت روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ہوئی 8کے حوالے سے ہمارا سسٹم کارفرما تھا جبکہ 6 اموات ایسی تھیں جہاں ہمارا سسٹم ہی نہیں تھا ہر حادثے کے ذمے دار ہم نہیں ۔ اعظم سواتی نے رائے دی کہ قائمہ کمیٹی کو جدید سسٹم کی تفصیلات طلب کرنی چاہیے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہاکہ اگر یہ رپورٹس دیکھی جائیں تو 44 اموات ہوچکی ہیں جبکہ ہماری اطلاع کے مطابق حادثات زیادہ ہوئے ہیں اب بھی اموات ہورہی ہیں ۔ ڈی جی نیپرا نے کہاکہ 9حالیہ حادثات کے حوالے سے بھی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈسٹربیوشن عامر ضیا نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کابینہ سیکرٹریٹ میں انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں 3 سے5 لاکھ بجلی کے غیر قانونی کنڈے ہیں۔ تاریں بھی چوری کر لی جاتی ہیں، انٹرنیٹ، ٹی وی کیبلز غیر قانونی طورپر بجلی کی تنصیبات پر لگائی گئی ہیں، اڑھائی سو پولز پرجدید کنڈکٹرز لگائے گئے ہیں، غیرقانونی کیبلز کی وجہ سے نوٹسز دیے تو ہمیں دھمکی دی گئی کہ ملک بھر میں انٹرنیٹ بند کردیں گے ،سندھ حکومت اور کراچی انتظامیہ کو خطوط لکھ چکے ہیں، نیپرا ہماری کارکردگی کی تعریف کرچکی ہے، چیئرمین کے الیکٹرک اکرام سہگل نے کہاکہ ہماری غلطیاں ہوسکتی ہیں مگر تمام بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیاجائے ۔ نیپرا اس بارے میںا سٹڈی کرچکا ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہاکہ ہمیں ملک بھر کے حادثات کا جائزہ لینا ہے، انہوں نے سندھ حکومت اور کمشنر کراچی کو لکھے گئے خطوط کاریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ کے الیکٹرک کے حوالے سے پارلیمنٹ کراچی کے صارفین کی مدد کرے گا، سینیٹر آشوک کمار نے کہاکہ ابھی تک یہ تسلی بخش جواب نہیں آسکا کہ کے الیکٹرک کے پولز میں ارتھ سسٹم کیوں نہیں ہے۔ واضح طورپر ہاں یا ناں میں جواب آنا چاہیے مگر ہمیں اس حوالے سے کچھ آگاہی نہیں مل رہی۔ قائمہ کمیٹی نے نیپرا سے دریافت کیا کہ کیا کے الیکٹرک کے نئے آلات کا معائنہ کیا گیا تھا؟ انہوں نے کہاکہ یہ ان کے مینڈیٹ میں نہیںہم بجلی کے نرخ کا تعین کرتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔ چیئرمین کے الیکٹرک نے بتایا کہ ان کے ادارے کی جانب بجلی نہیں بڑھی پرانے نرخ پر بجلی دے رہے ہیں۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہاکہ اموات اور دیگر حادثات کے حوالے سے بھی ذمے داری قبول کرنی ہوگی۔ اکرام سہگل نے کہاکہ ہمارا داخلی جانچ پڑتال کاسسٹم بھی ہے۔ ہم اپنے طورپر بھی ذمے داران کاتعین کریں گے ۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہاکہ انٹرنل آپریشنل غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے کے الیکٹرک سے حفاظتی اقدامات سے متعلق رپورٹ مانگ لی ہے جبکہ نیپرا سے پورے پاکستان کی ڈسکوز کی کارکردگی رپورٹس طلب کی گئی ہیں قائمہ کمیٹی اس حوالے سے تقابلی جائزہ لے گی جبکہ قائمہ کمیٹی نے دورہ کراچی کا اعلان بھی کیا ہے۔