میراث کی عدم تقسیم

215

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

سوال: میرے والد صاحب نے اپنے ذاتی سرمائے سے ایک دکان لگائی۔ اس سے پورے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ انھوں نے اپنی معاونت کے لیے میرے ایک بھائی کو اور کچھ دنوں کے بعد دوسرے بھائی کو شریک کیا۔ چند سال قبل والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ترکے کی تقسیم عمل میں نہیں آئی۔ بڑے بھائی اس دکان کی آمدنی سے پورے گھر کا خرچ اٹھاتے رہے۔ لیکن اب وہ گھر کا خرچ اٹھانے سے انکار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دکان سے ہونے والے منافع کے صرف وہی حقدار ہیں، دوسرے بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا جو بھائی دکان چلا رہا ہے صر ف وہی کل منافع کا حقدار ہے یا وہ صرف اجرت کا مستحق ہے اور منافع میں تمام ورثا شریک ہوں گے؟ وہ دکان ایسی ہے کہ اگر اسے صرف کرایے پر اٹھا دیاجائے تو ماہانہ پچاس ہزار روپے کرایہ آسکتا ہے۔
جواب: اسلامی شریعت پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں انسانی زندگی میں کتنی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں، آپ کا کیس اس کا ایک نمونہ ہے۔ اس پر غور کرنے سے چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں:
1۔کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی ملکیت کی چیزوں میں سے کوئی چیز کسی کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ اسی طرح باپ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو اپنی کسی چیز کا مالک بناسکتا ہے۔ اس سلسلے میں حدیث سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ اگر کسی شخص کی کئی اولادیں ہوں اور وہ کوئی چیز دینا چاہے تو سب کو برابر برابر دے، تاکہ ان میں سے کسی کو اپنی حق تلفی کا احساس نہ ہو۔ حتیٰ کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بھی فرق نہ کرنا چاہیے۔ آپ کے بیان کے مطابق آپ کے والد نے ایسا نہیں کیا۔ یعنی اپنے کسی بیٹے کو اپنی زندگی میں اپنی کسی چیز کا مالک نہیں بنایا۔
2۔کاروبار میں اگر سرمایہ باپ کا لگا ہے، لڑکوں نے کاروبار بڑھانے میں باپ کا تعاون کیا ہے تو مناسب یہ ہے کہ ابتدا ہی میں لڑکوں کی حیثیت متعین کرلی جائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو باپ کے زیر کفالت ہونے کی صورت میں وہ باپ کے معاون شمار ہوں گے، منافع میں ان کا الگ سے حصہ نہیں لگایا جائے گا۔
3 ۔باپ کے انتقال کے بعد فوراً اس کی پوری ملکیت (مکان، دکان، زمین، جائداد، کاروبار وغیرہ) ورثا کے درمیان تقسیم ہوجانی چاہیے تھی۔ اگر اْس وقت تقسیم نہیں ہوئی تو اب جتنی جلد ممکن ہو، اسے تقسیم کرلینا چاہیے۔
4 ۔آپ کا جو بھائی دکان چلارہا ہے، ظاہر ہے وہ دکان اس کی ملکیت نہیں ہے، کیوں کہ باپ نے اپنی زندگی میں اسے دکان کا مالک نہیں بنایا تھا۔ محض یہ بات کہ وہ باپ کی زندگی میں ان کے ساتھ دکان پر بیٹھتا تھا، اس کا مالک ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کی تقسیم شرعی اعتبار سے ہونی چاہیے۔ اس کی ایک قابل عمل صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اس کی مالیت متعین کرکے اس میں دوسرے بھائیوں اور دیگر ورثا کا جو حصہ بنتا ہو اسے وہ ادا کردے، اس طرح دکان کا مالک بن جائے، بشرط کہ دیگر ورثا اس پر تیار ہوجائیں، یا کسی اور صورت پر تمام ورثا اتفاق کرلیں۔ بہرحال کسی ایک بھائی کا اپنے باپ کی پوری میراث پر قبضہ کرلینا اور دیگر ورثا کو محروم رکھنا کسی طور پر بھی جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔