نرم مزاجی

219

مفتی محمد عبداللہ

ہمارے اسلاف ‘ جن کی زندگی آپؐ کی عملی زندگی کا پرتو تھی، اور قندیلِ سیرت سے انہوں نے اپنے اخلاق وکردار کے بام ودر کو روشن ومنورکیا تھا‘ کی عملی زندگی میں بھی یہ وصف نمایاں نظر آتا ہے۔ امام بخاریؒ جنہوں نے صحیح بخاری جیسی شہرۂ آفاق کتاب تحریر کی، اور جس کو ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ ہونے کا شرف حاصل ہے، کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ امام بخاریؒ بیٹھے ہوئے تھے، اندر سے آپ کی کنیز آئی، اور تیزی سے نکل گئی، پاؤں کی ٹھوکر سے راستے میں رکھی ہوئی شیشی اْلٹ گئی۔ امام صاحب نے ذرا غصے سے فرمایا: کیسے چلتی ہے؟ کنیز بولی: جب راستہ نہ ہو تو کیسے چلیں! امام صاحبؒ نے یہ سن کر انتہائی تحمل اور بردباری سے جواب دیا: جا میں نے تجھے آزاد کیا۔ صیادفی جو امام بخاریؒ کی مجلس میں موجود تھے، انہوں نے کہا: اس نے تو آپ کو غصہ دلانے والی بات کہی تھی، آپ نے اس کو آزاد کردیا؟ فرمایا: اس نے جو کچھ کہا اور کیا، میں نے اپنی طبیعت کو اسی پر آمادہ کرلیا۔
اما م اعظم ابوحنیفہؒ جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فنِ فقہ میں غیرمعمولی مہارت عطا کی تھی، اور ان کے طریقۂ اجتہاد کو پورے عالم اسلام میں جو شہرت اور مقبولیت عطا کی ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ ان کے بارے میں سوانح نگاروں نے لکھا ہے کہ: ایک شخص جس کو امام ابوحنیفہؒ سے چپقلش اور عداوت تھی، اس نے امام ابوحنیفہؒ کو ایک مرتبہ راہ چلتے ہوئے خوب برا بھلا کہا۔ امام ابوحنیفہؒ بڑے صبر وتحمل کے ساتھ سنتے رہے، اور اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا، جب امام ابوحنیفہؒ کا گھر قریب آگیا تو آپؒ نے فرمایا: اب میں اپنے گھر جارہا ہوں، اگر تمہیں اور کچھ کہنا ہے تو میں اسی جگہ ٹھہرجاتا ہوں؛ تاکہ تم اپنے دل کی بھڑاس نکال لو، وہ شخص دل ہی دل میں بڑا شرمندہ ہوا، اور آپ کے اس رویے نے اس کی عداوت ودشمنی کو محبت ودوستی سے بدل دیا۔
خواص قوم وملت کا دھڑکتا دل ہوتے ہیں، قوموں کی تعمیر وترقی میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے، قوموں کے عروج واقبال اور شکست وریخت کے بنیادی محرک یہی حضرات ہوتے ہیں۔ تمام شعبہ ہائے حیات میں خواص حضرات قوم وملت کے قائد ورہنما ہوتے ہیں، ملت کی صحیح فکر اور حقیقی معنوں میں ملت کا درد خواص کو ہوتا ہے، ان کے اقوال وافعال اور حرکات وسکنات میں قوم وملت کے لیے غیر شعوری طور پر دعوت کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔ ان کے اخلاق وعادات، طرزِ معاشرت، بود وباش اور رہن سہن قوم وملت پر غیر محسوس طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر خواص واکابر کے اخلاق وعادات گلشنِ سیرت کے پھولوں سے عطر بیز ہوں تو ان کی خوشبو نکہتِ نسیم کی طرح پورے معاشرے کو معطر اور جانفزا کرتی ہے۔ اسی طرح طبقۂ خواص کے اندر فساد وبگاڑ، اخلاقی انارکی اور پرتکلف، پرتعیش طرزِ معاشر ت پوری قوم وملت کی تباہی وبربادی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
خواص سے مراد وہ حضرات ہیں جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے علوم نبوت کا وراث اور امین بنایا ہے، اورقرآن وحدیث کا ٹھوس اور مضبوط علم عطا کیا ہے، اور جن کے کاندھوں پر اْمت کی رہبری و رہنمائی کی ذمے داری ڈالی ہے۔ ظاہر ہے کہ اْمت کی دینی قیادت بڑی نازک اور اہم ذمے داری ہے، اوراس کے لیے خواص اور علما کو ایک طرف قرآن وحدیث کا ٹھوس علم ہونا اور عصرحاضرکے تقاضوں اور اس کے چیلنجوں سے واقف ہونا ضروری ہے تو دوسری طرف بلند اخلاق وکردارکا حامل ہونا اور صفاتِ حسنہ سے آراستہ ہونا بھی ناگزیر ہے۔ جس عالم دین کو قرآن وسنت کا مضبوط اور پختہ علم ہو، شریعتِ مطہرہ کے اْصول وجزئیات سے گہری واقفیت ہو؛ لیکن اخلاق وکردارکے لحاظ سے وہ غیرذمے دارہو، اس کے قول وعمل اورخلوت وجلوت میں ہم آہنگی اور یکسانیت نہ ہو، اس کی مثال اس پھول کی طرح ہے جس میں خوشبو نہ ہو، اس ستارے کی طرح ہے جس میں روشنی نہ ہو، اس عندلیب کی طرح ہے جو خوش آواز نہ ہو۔ ایسا عالم ظاہر ہے کہ اْمت کی صحیح قیادت اور ان کی صحیح دینی رہنمائی نہیں کرسکتا، اور اپنے علم سے عوام الناس کو خاطرخواہ فائدہ نہیں پہنچا سکتا، اس لیے علما اور خواص کو اخلاقِ حسنہ سے متصف ہونا بے حد ضروری ہے۔