سید ابوالااعلی مودودی ؒ

314

کام کا طریقہ
میرا مشورہ یہی ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کْھلم کْھلا اعلانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانونی ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر رہ کر چلاتے رہیں۔ خود نبی اکرمؐ کا طریقِ کار اعلانیہ اور کْھلم کْھلا تبلیغ کا تھا۔ آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعًا حوصلہ افزائی نہ کریں۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔
(اگست 1972ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کی تربیت گاہ سے خطاب)
٭…٭…٭
دین اسلام
مسلمان کا دین اسلام محض ایک مذہبی عقیدہ اور عبادتوں کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کو دنیا میں راہ راست پر رہتے ہوئے زندگی گزارنے کا پورا نقشہ بتاتا ہے، ظاہر ہے کہ زندگی کا ایک مکمل اور سچا نقشہ دوسرے غلط اور باطل نقشوں کو مٹانے کا بھی کام کرے گا اور اپنے اصلاحی پروگرام کے مطابق زندگیوں کو ڈھالنا بھی چاہے گا۔ (نیکی کی دعوت)
٭…٭…٭
آدمی کا اصل مقام
آدمی کا اصل مقام وہ ہے جو آخرت میں اْس کی نیّت و عمل کو دیکھ کر اور اپنے فضل سے اس کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ اْسے دے، نہ کہ وہ جس کا وہ خود دعویٰ کرے یا لوگ اسے دیں۔
اپنے لیے خود القاب و خطابات تجویز کرنا اور دعووں کے ساتھ انہیں بیان کرنا اور اپنے مقامات کا ذکر زبان پر لانا کوئی اچھا کام نہیں ہے۔
بعد کے اَدوار میں صوفیانہ ذوق نے تو اسے اتنا گوارا کیا کہ خوشگوار بنا دیا۔ حتی کہ بڑے بڑے لوگوں کو بھی اس فعل میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوئی۔ مگر صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین و اَئِمّۂ مجتہدین کے دَور میں یہ چیز بالکل ناپید نظر آتی ہے۔ (رسائل و مسائل سوم )
٭…٭…٭
پرامن انقلاب کا راستہ
الیکشن لڑنا اور اسمبلی میں جانا اگر اس غرض کے لیے ہو کہ اگر ایک غیراسلامی دستور کے تحت ایک لادینی( Secular )
جمہوری ( Democratic) ریاست کے نظام کو چلایا جائے تو یہ ہمارے عقیدہ توحید اور ہمارے دین کے خلاف ہے۔
لیکن اگر کسی وقت ہم ملک کی رائے عام کو اس حد تک اپنے عقیدہ و مسلک سے متفق پائیں کہ ہمیں یہ توقع ہوکہ عظیم الشان اکثریت کی تائید سے ہم ملک کا دستور حکومت تبدیل کر سکیں گیں۔ تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اس طریقے سے کام نہ لیں۔
جو چیز لڑے بغیر سیدھے طریقے سے حاصل ہو سکتی ہو اس کو خواہ مخواہ ٹیڑھی انگلیوں ہی سے نکالنے کا ہم کو شریعت نے حکم نہیں دیا ہے۔ مگر یہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ہم یہ طریقہ کار صرف اس صورت میں اختیار کریں گیں کہ اولا ملک میں ایسے حالات پیدا ہو چکے ہوں کہ محض رائے عام کسی نظام کے لیے ہموار ہوجانا ہی عملا اس نظام کے قائم ہونے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔
ثانیا: ہم اپنی دعوت وتبلیغ سے باشندگان ملک کی بہت بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بناچکے ہوں اور غیراسلامی نظام کے بجائے اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ملک میں عام تقاضا پیدا ہو چکا ہو۔
ثالثا: انتخابات غیراسلامی دستورکے تحت نہ ہوں بلکہ بنائے انتخاب ہی یہ مسئلہ ہو کہ ملک کا آئندہ نظام کس دستور پر قائم کیا جائے۔ (اسلامی ریاست)
٭…٭…٭
ذہنی و مادی ترقی
فطری قانون یہی ہے کہ جو قوم عقل وفکر سے کام لیتی اور تحقیق واکتشاف کی راہ میں پیش قدمی کرتی ہے، اْس کو ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے، اور جو قوم تفکر وتدبر کے میدان میں مسابقت کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ ذہنی انحطاط کے ساتھ مادی تنزّل میں بھی مبتلا ہو جاتی ہے۔ ( تنقیحات)