قناعت

193

عتیق احمد شفیق

دکھ، درد اور رنج سے نجات دلانے والی چیز قناعت (بھی) ہے۔ جس شخص کو قناعت کی دولت نصیب ہوگئی وہ رنج وغم سے محفوظ ہوگیا۔ کیونکہ جو کچھ اسے ملا ہے، اس پر وہ اللہ کا شکر گزار رہے گا اور جو کچھ اس کو نہیں ملا اس کے لیے فکرمند نہیں ہوگا۔ دولت کی فراوانی اور عیش و عشرت کی آرزو اگر نہیں ہے اور نہ شہرت و ناموری کی کوئی تمناہے تو پھر وہ زیادہ سکون کی زندگی گزارے گا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’فلاح وکامرانی سے ہم کنار ہوگیا وہ شخص جس نے اسلام اختیار کیا۔ رزق بھی بقدر ضرورت اسے ملا اور خدا نے جو کچھ عطا کیا اس پر اسے قانع بنادیا‘‘۔ (مسلم)
موجودہ دور میں انسان کی پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے اپنا معیار زندگی بہت بلند کرلیا ہے۔ ہر فرد اونچے محلوں کاخواب دیکھتا ہے، ہر بیوی اپنے شوہر سے تاج محل کا مطالبہ کرتی نظرآتی ہے۔ جب شوہر شاہجہاں نہیں تو لال قلعہ، آگرہ کا قلعہ کیسے تعمیر ہو، تاج محل کیسے بنے؟
اولاد اپنے والدین سے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ دنیا میں کون ہے جس کی ساری تمنائیں پوری ہوگئی ہوں اور اگر کوئی نہیں اور یقینا نہیں تو پرسکون زندگی گزارنے کے لیے قناعت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ناسمجھ لوگ جو دولت قناعت سے عاری ہوتے ہیںاصحاب ثروت کے ٹھاٹ باٹ، شان و شوکت اور کروفر سے مرعوب ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’یہ ایک واقعہ ہے کہ قارون موسیٰ کی قوم کا ایک شخص تھا پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہوگیا اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقتور آدمیوںکی ایک جماعت مشکل سے اٹھاسکتی تھی۔ ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا کہ پھول نہ جا، اللہ پھولنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔ تو اس نے کہا: یہ سب کچھ تو مجھے اس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کرچکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے… الخ (القصص:76-82)
ان آیات سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:
1۔صاحب ثروت خود بھی دھوکے میں مبتلاہوجاتا ہے کہ رزق کی فراوانی کو اللہ کی مشیت کی بجائے یا تو وہ اپنے علم و قابلیت اور عقلمندی کا نتیجہ سمجھنے لگتا ہے یا پھر اس خوش فہمی میں مبتلاہوجاتا ہے کہ اللہ اس سے خوش و راضی ہے۔
2۔اللہ مجرموں کو جب پکڑتا ہے تو ان کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔
3۔دنیادار اور کمزور اہل ایمان بھی اہل ثروت کی چمک دمک اور شان و شوکت سے دھوکا کھا بیٹھتے ہیں اور دولت مندی کو خوش نصیبی کی علامت سمجھنے لگتے ہیں۔
4۔ناشکرے مالدار جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تب ان کو معیار بنانے والوں کی آنکھیں کھلتی ہیں۔
5۔ناشکرے اور متکبر لوگوں کے جاہ وجلال اور حشمت و شوکت سے اہل ایمان دھوکا نہیں کھاتے انہیں ان کے ایمان کے طفیل دولت قناعت حاصل ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے اندر اتنا تحمل اور ثابت قدمی پیدا ہوجاتی ہے کہ حلال طریقے سے رزق کمانے سے کوئی چیز ان کو روک نہیں پاتی ہے۔ فراوانی، مال کی تمنا میں حرام طریقے کی طرف راغب نہیں ہوتے ہیں۔ وہ مال و دولت کی ہوس کا شکار ہوکر ایمان داری، دیانت داری کو داؤ پر نہیں لگاتے۔ چاہے اس کے نتیجے میں فاقہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے، اس کی یہی قناعت پسندی اس کو عمل صالح پر آمادہ کرتی ہے۔ موقف حق پر قائم اور ثابت قدم رکھتی ہے۔
قناعت پسندی کی صفت پیدا کرنے کے لیے لازمی چیز یہ ہے کہ انسان اللہ پر ایمان لائے جیساکہ اس کا حق ہے۔ آخرت کے اجر عظیم کا استحضار، موت کی یاد، دنیا کی حقیقت ان چار چیزوںکو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ قناعت پسندی کی صفت سے متصف ہو جو دنیوی زندگی پرسکون انداز سے گزارے۔