گٹکا فیکٹریاں… حکمرانوں کے خلاف مقدمہ بنایا جائے

329

سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ گٹکے کی فروخت روکنے کے لیے ریاستی ادارے مکمل ناکام ہو گئے ہیں ۔ اس کی تیاری اور فروخت دہشت گردی ہے ۔ عدالت نے اس معاملے میں سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ پولیس اور اسمبلی میںبیٹھے لوگ بھی اس میںملوث ہیں ۔ آئی جی سندھ کو حصہ نہیںملتا تو کاررائی کیوں نہیںکرتے ۔ جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے ہیں کہ گٹکا بنانے والوں کو عمر قید ہونی چاہیے ۔ کیا حکومت چاہتی ہے کہ ساری قوم کینسر کی مریض بن جائے ۔ عدالت کے اس حکم اور ریمارکس سے اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ یہ نکتہ بھی سامنے آیا کہ معاملہ صرف گٹکے کی فروخت کانہیں ہے، اس کے کارخانے کیوںموجود ہیں ۔ ہماری پولیس گلی گلی میں عوام کی جاسوسی کرتی پھرتی ہے لیکن اسے یہ پتا نہیں چلتاکہ گٹکا کہاںبنتا ہے اور کون بنا رہا ہے ۔ عدالتی حکم کے بعد یہ ضرور ہو رہا ہے کہ پولیس والے اوررینجرز بھی چوراہوں پر اور سڑکوں پر لوگوں کو روک روک کر ان کے منہ کھلوا کر چیکنگ کررہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگرگٹکا غلط ہے اور بالکل غلط ہے تو پھر اس کے کار خانوں کو اجازت دینے والے حکمرانوںکے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ درج کیا جانا چاہیے ۔ عدالت نے بجا طور پر نوٹس لیا ہے لیکن ایک اور بات کا نوٹس لیا جانا چاہیے کہ شہر میں پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ لوٹ مار بڑھ رہی ہے ۔ گھروں کے سامنے لوگ قتل ہو رہے ہیں ۔اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کوئی شہری بینک سے رقم نکلواکر محفوظ طریقے سے گھر پہنچ جائے گا ۔میڈیکل کی طالبہ مصباح ہو یا دیگر لوگ ہر فرد پھر خوفزدہ ہو رہا ہے ۔ اصل مسئلہ وہی ہے کہ مجرم پکڑاجائے تو سارا محلہ اس کا گواہ ہوتا ہے لیکن عدالتی نظام اور پیچیدگیاںمجرموں کو شیر بناتی ہیںکہ عام آدمی گواہی دینے سے ڈرتا ہے الٹا گواہوں کو قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔جب مجرموں کو سزانہیں ملے گی تو معاشرے میںبے چینی ہی پھیلے گی ۔ کراچی میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کے باوجود آئی جی پولیس سندھ فرماتے ہیں کہ ماضی کے مقابلے میں جرائم کی شرح بہت کم ہوگئی ہے اور حال یہ ہے کہ لوگ سر عام بھی لٹ رہے ہیں اور گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ دوسری طرف شہر میں ہر طرف پولیس اور رینجرز کا گشت جاری ہے۔ حکمران کہہ رہے ہیں کہ گٹکا اور مین پوری استعمال کرنے والوں کی نشاندہی کریں۔ یعنی یہ کام بھی عوام کریں۔ طرح طرح کی دھمکیوں اور سزائوں کے اعلان کی وجہ سے گٹکا، ماوا، مین پوری کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں لیکن نہ ان کی فروخت بند ہوئی ہے نہ استعمال۔ یہ خبریں عام ہیں کہ گٹکے اور ماوا کے کارخانوں کی سرپرستی پولیس کرتی ہے اور اب اس نے اپنے بھتے میں اضافہ کردیا ہے۔ سگرٹ کے پیکٹوں پر بھیانک تصاویر شائع کرنے سے کیا فرق پڑا ہے؟ پینے والے تو یہ تصاویر دیکھتے بھی نہیں۔ ہمت ہے تو سگرٹ تیار کرنے والے کارخانے بند کرکے دکھائیں۔