گٹکے کی تیاری اور فروخت دہشت گردی ہے،سندھ ہائیکورٹ

124

کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائی کورٹ میں گٹکے کی تیاری اور فروخت سے متعلق درخواست کی سماعت ،عدالت نے تحریری فیصلہ جاری کردیا،گٹکا کی تیاری اور فروخت پر عدالت کا شدید تشویش کا اظہار ، عدالت نے کٹگے کی خرید و فروخت روکنے کے لیے رینجرز کو بھی احکامات جاری کردیے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے 9 صفحات پر مشتمل اپنے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ گٹکا کی فروخت روکنے کے لیے ریاستی ادارے مکمل طور ناکام ہوچکے ہیں،کوئی ریاستی ادارہ اپنی ذمے داری ادا کرنے کو تیار نہیں،قانون نافذ کرنے والوں کی ناکامی کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہورہا ہے ، 17000 ٹن گٹکا پکڑ کر 6000 ٹن ظاہر کیا جاتا ہے ، یہ لمحہ فکرہے، سرکاری افسران کا طرز زندگی آمدنی سے مطابق نہ رکھتا ہو تو چھان بین کی ضرورت ہے، ہمیں حضرت عمر فاروقؓ کی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہیے، عدالت نے چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، ڈی جی فوڈ کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا جبکہپراسیکیوٹر جنرل سندھ، آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز سے عمل درآمد رپورٹ بھی طلب کی ہے ۔ سندھ ہائی کورٹ میں گٹکا بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی جس میں سیکرٹری قانون اور دیگر شخصیات پیش ہوئیں۔ دوران سماعت ڈاکٹر نے انکشاف کیا کہ صرف جناح اسپتال میں سالانہ منہ کے کینسر کے 10 ہزار مریض آ رہے ہیں۔سیکرٹری قانون نے عدالت کو بتایا کہ قانون سازی کے لیے بل کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے، امید ہے ایک ہفتے میں بل منظور ہو جائے گا۔جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ آپ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں؟ 15 روپے کا گٹکا خریدنے والا اور بنانے والا برابر کیسے ہو سکتا ہے؟عدالت نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کروڑوں روپے کمانے والے مینوفیکچررز کے لیے بھی 3 سال کی سزا؟ گٹکا بنانے والوں کے لیے کم از کم عمر قید کی سزا ہونی چاہیے۔جج نے دوران سماعت کہا کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں یہاں وزیر کو یا وزیر اعلیٰ کو بلایا جائے؟ اگر ضرورت پڑی تو وزیر اعلیٰ کو بھی بلائیں گے۔عدالت نے کہا کہ ایک اسپتال میں منہ کے کینسر کی اتنی بڑی تعداد حیران کن ہے، کیا یہ جنگی حالات نہیں؟،جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی تو دہشت گردی ہے جو انسانوں کی جان لے رہا ہے، کیا حکومت چاہتی ہے ساری قوم کینسر کی مریض بن جائے؟۔انہوں نے کہا کہ گٹکے کی تیاری اور فروخت میں پولیس اور اسمبلی میں بیٹھے لوگ بھی ملوث ہیں، ان کی ملی بھگت کے بغیر گٹکا فروخت نہیں ہو سکتا۔سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ بڑے بڑے لوگ جو اسمبلیوں میں آتے ہیں وہ بھی اس کے ذمے دار ہیں، پولیس کو معلوم ہوتا ہے کہ گٹکا کون اور کہاں بنا رہا ہے؟۔ایڈیشنل آئی جی لیگل برانچ نے عدالت کو بتایا کہ آپ کے حکم کے بعد 5 دن میں 11 مقدمات درج ہوئے ہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کتنے ایس ایس پیز کے خلاف کارروائی ہوئی؟ جب تک ان افسران کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی معاملات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔سندھ ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ گٹکا بنانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی، آئی جی کو کتنا شیئر ملتا ہے؟ اگر آئی جی کو شیئر نہیں ملتا تو کارروائی کیوں نہیں کرتے؟عدالت نے مزید کہا کہ ایس ایس پیز کے اثاثوں کی تحقیقات کرائیں سب پتا چل جائے گا، ابھی معاملہ نیب اور ایف آئی اے کو بھیجتے ہیں، پولیس افسران کے اثاثوں کی چھان بین ہونی چاہیے۔جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ جاگیرداروں کو بدنام کرتے ہیں، اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی ذہنیت بھی وہی ہے، پولیس لکھ کر دے کہ گٹکا فروشی میں دوسری قوتیں بھی ملوث ہیں۔
گٹکا