مہنگائی اور بیرزگاری ملک کے سب سے سنگین مسئلے بن چکے ہیں،میاں زاہد

167

کراچی ( اسٹاف رپورٹر) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ بے روزگاری ملک کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو معاشرے میں شدید بے چینی کا سبب بن رہا ہے۔ اگر بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے بروقت اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ عفریت معاشرے کے تار و پود بکھیرنے کے بعد ملک کوکمزور کردے گا۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں پیداواری اشیاء کی طلب میں زبردست کمی واقع ہو چکی ہے جس کی وجہ سے کمپنیاں اپنی پیداوار کم اوردیوالیہ پن سے بچنے کے لیے ملازمین کو فارغ کر رہی ہیںجس سے روزگار کاسنگین بحران جنم لے چکا ہے۔اسی طرح خدمات فراہم کرنے والے ادارے بھی مسائل کا شکار ہیں جس سے نکلنے کے لیے اخراجات کم کیے جا رہے ہیں جس کی پہلی ضرب ملازموں پر پڑرہی ہے جس سے سنگین معاشی اور سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ بے روزگاری سماج کے ہر شعبہ کو متاثر کر رہی جبکہ عوام کی قوت خرید مسلسل کم ہو رہی ہے جس سے طلب بھی کم ہو رہی ہے جس نے اقتصادی سرگرمیوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔ بے روزگاری عام ہو چکی ہے تاہم پڑے لکھے افراد میں بے روزگاری کا تناسب ان پڑھ لوگوں سے تین گنا زیادہ ہے۔انھوں نے کہا کہ کاروباری برادری کی پریشانیوں، خدشات اور اس کے نتیجہ میں اعتماد میں کمی کی وجہ سے سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی ہے جس نے بے روزگاری غربت اور بے چینی کو پروان چڑھایا ہے۔ ایک طرف روزگار کم ہو رہا ہے تو دوسری طرف مارکیٹ میں روزگار تلاش کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ ر ہی ہے جبکہ مہنگائی نے بھی ملک بھر کے عوام کو اضطراب میں مبتلاء کیا ہوا ہے۔عوام کی اکثریت کا سکھ اور چین ختم ہو چکا ہے اور انھیں مستقبل قریب میں کہیں سے امید کی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔سات سال تک مسلسل بھرپور ترقی کرنے والا سیمنٹ سیکٹر بھی اب لڑکھڑا رہا ہے جس کا اثر لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے والے تعمیری شعبے کے علاوہ35 صنعتوں پر پڑ رہا ہے۔سیمنٹ گزشتہ پانچ سال کی نچلی ترین سطح پر آ گیاہے جبکہ آٹو سیکٹر کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے جس کی پیداوار میںز بردست کمی آ چکی ہے جسے دیکھتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہشمند غیر ملکی آٹو کمپنیوں نے مقامی مارکیٹ میں کاروبارکرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہے اور دیگر ممالک میں اپنے پلانٹ لگانا شروع کر دیے ہیں۔انجینئرنگ سیکٹر کے منافع میں 61 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ اسٹیل اور کیمیکل سیکٹر بھی مسائل کا شکار ہیں۔الیکٹریکل اشیاء بنانے والی کمپنیوں کے منافع میں 42 فیصد کمی آئی ہے جبکہ کئی شعبے دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بے روزگاری سے نمٹنا حکومت کے بس کا روگ نہیں بلکہ یہ مسئلہ صنعتی شعبہ ہی حل کر سکتا ہے مگر یہ شعبہ اسی صورت میں روزگار دے سکتا ہے جب اسے چلنے دیا جائے۔