مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون بدستور جاری، مقامی معیشت کو ایک ارب ڈالر کا نقصان

150

سری نگر،واشنگٹن(خبر ایجنسیاں) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے نافذ کرفیو، لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں کی وجہ سے مقامی معیشت کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں دو ماہ سے جاری لاک ڈاؤن اور مواصلاتی رابطے منقطع ہونے کے باعث کشمیریوں کی زندگی شدید مشکلات کا شکار ہے اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق مقامی کاروبار کو 1.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور ہزاروں نوکریاں ختم ہوگئی ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کے بنیادی شعبہ سیاحت کو پہنچا ہے جس کے تین ہزار ہوٹل خالی پڑے ہیں اور مالکان مقروض ہوگئے ہیں۔سری نگر کے مشہور ڈل جھیل کے کشتی ران ہوں یا ٹریول ایجنٹ سبھی گھروں میں بے کار بیٹھے ہیں۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عاشق نے بتایا کہ قالینوں کی صنعت میں 50 ہزار سے زیادہ نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔اسی طرح کشمیر کے پھلوں کے تاجر بھی شدید مالی نقصان کا سامنا کررہے ہیں جن کے سیبوں کا کوئی خریدار موجود نہیں۔ مقامی بازار، دکانیں اور مرکزی منڈی سب خالی پڑی ہے۔1.4 ارب ڈالر کا یہ نقصان صرف کشمیریوں کو نہیں بلکہ بھارت کو بھی مقبوضہ کشمیر سے ہونے والی آمدنی کی صورت میں شدید گھاٹا اور خسارہ ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق وادی کشمیر میں ہنر مند کاریگروں کی بھی کمی ہے کیونکہ لاک ڈائون شروع ہونے کے بعد 4لاکھ سے زائد غیر کشمیری کاریگر علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ وادی کشمیر کے عوام نے کشمیر کے لیے سفری پابندی اٹھانے کے گورنر کے احکامات کو مضحکہ خیز قراردیا ہے جس کی وجہ سیاح علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔انہوںنے کہاجب موبائل اور انٹرنیٹ سمیت تما م مواصلاتی ذرائع معطل ہیں ان حالات میں کون کشمیر آنا چاہے گا۔ دریں اثناء ہیومن رائٹس واچ نے ایک مرتبہ پھر بھارت سے انسانی حقوق کی بحالی پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت سے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور مواصلاتی ذرائع بحال کرے ۔گزشتہ روز اپنے مراسلے میں ہیومن رائٹس واچ نے کہاکہ مودی حکومت کشمیری عوام کی جمہوری امنگوں کا احترام کرے ۔ امریکی سینیٹر مارک وارنر نے ہیومن رائٹس واچ کے مطالبہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ وادی میں مواصلاتی ذرائع پرعائد پابندی فوری ختم کرے ۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بحالی یقینی بنائے۔ مقبوضہ کشمیر میں معمولات زندگی مسلسل 66 روز بھی مفلوج ہے ۔ کرفیو اور دیگر پابندیوں کے باعث مقبوضہ وادی میں ہولناک ویرانی کا منظر ہے۔علاوہ ازیںمقبوضہ کشمیر کی سماجی کارکن شہلا رشید نے انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو جائز قراردینے کے عمل کا حصہ نہیں بن سکتیں۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی میں سٹوڈنٹس یونین کی سابق نائب صدر شہلا رشید نے کہاکہ وہ کشمیر میں بلاک ڈیویلپمنٹ کونسل کے انتخابات منعقد کرانے کے بھارتی حکومت کے اعلان کے بعد یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئیں جہاں سخت پابندیاں عائد اور مواصلاتی ذرائع مسلسل معطل ہیں ۔ ایک بیان میں انہوں نے بلاک ڈیویلپمنٹ کونسل کے انتخابات کو شرمناک قراردیتے ہوئے کہاکہ بھارتی حکومت یہ انتخابات دنیا کو یہ بتانے کے لیے منعقد کروا رہی ہے کہ بھارت اب بھی ایک جمہوریت ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارتی حکومت کشمیری بچوں کو مسلسل اغوا کررہی ہے اورکشمیریوں کو ایمبولینس اور دیگر ہنگامی سروسز سے بھی محروم رکھا جارہا ہے۔