ماہرین نے واٹر بورڈ کے ’’ بورڈ ‘‘ میں تبدیلی غیر قانونی قرار دیدی

222

کراچی (رپورٹ: محمد انور) حکومت سندھ کی جانب سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ (کے ڈبلیو اینڈ ایس بی ) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ازسر نو تشکیل کو ماہرین قانون نے خلاف قانون قرار دے دیا ہے۔ جس کا مقصد صوبائی حکومت کی اجارہ داری قائم کرنے کے علاوہ دیگر اور مقاصد بھی ہیں۔ خیال رہے کہ نئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو 2 حصوں اے اور بی میں تقسیم کیا گیا ہے مگر بااختیار گروپ اے میں سرکاری افسران کی تعداد 4 ہے جو کسی بھی فیصلے پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ نو تشکیل شدہ بورڈ کا چیئرمین صوبائی وزیر بلدیات کو بنایا گیا ہے جبکہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو ادارے کا ایم ڈی مقرر کرنے کا بھی اختیار دے دیا گیا۔ اس سے قبل یہ اختیار چیف سیکرٹری سندھ کے پاس تھا جو وزیراعلیٰ کی ہدایت اور صوبائی وزیر بلدیات کی سفارش پر کسی کو ایم ڈی مقرر کیا کرتے تھے۔ نئے بورڈ میں صوبائی حکومت نے 4 وفاقی اداروں اور کراچی کے 6 ڈی ایم سیز کی نمائندگی ہی ختم کردی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں گورننگ باڈی ’’بورڈ‘‘ کہلاتی تھی۔ اسے بورڈ آف ڈائریکٹرز نہیں کہا جاتا تھا اور بورڈ کی تشکیل ایکٹ کے تحت ہوئی ہے اس لیے اس میں کی گئی مذکورہ تبدیلی خلاف قانون ہے کیونکہ اسے تبدیل کرنے کے لیے بھی سندھ اسمبلی میں بل پیش کرنا ضروری ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ بورڈ کی 2 حصوں میں تقسیم بھی خلاف قانون ہے کیونکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سندھ اسمبلی سے 15 اپریل 1996ء کے تحت منظور کیے جانے والے بل ہوئی تھی۔ اس کے مطابق بورڈ کے ارکان کی کل تعداد 13 ہوگی جن میں کراچی پورٹ ٹرسٹ ، پاکستان ریلوے ، چیئرمین کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز ، ڈپٹی ڈائریکٹر ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ ، چیئرمین ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی، میئر کراچی، ڈی ایم سیز کے چیئرمین ، سیکرٹری فنانس ، سیکرٹری ہاؤسنگ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات اور سیکرٹری انڈسٹریز شامل تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’بورڈ ‘‘ کو بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تبدیل کرنے کے لیے بھی سندھ اسمبلی سے بل کی منظوری ضروری ہے۔ سندھ کے چیف سیکرٹری نے نئے بورڈ کی تشکیل صرف اپنے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کی ہے جس میں چیئرمین بورڈ کے اختیارات بھی خلاف قانون بڑھائے گئے ہیں۔