انتخابات‘ سقوط ڈھاکا اور بھٹو کا دورِ حکومت(باب دواز دہم )

490

’’ جماعت اسلامی کو سچائی نے شکست نہیں دی‘ جھوٹ نے شکست دی ہے۔ جماعت اسلامی اگر سچائی سے شکست کھاتی تو فی الواقع اس کے لیے شدید ندامت کا مقام تھا۔ لیکن چونکہ اس نے جھوٹ سے شکست کھائی ہے اس لیے اس کا سر فخر سے بلند ہے۔ وہ جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں لائی۔ وہ بداخلاقی کے مقابلے میں بداخلاقی نہیں لائی۔ اس نے سڑکوں پر رقص نہیں کیا۔ اس نے غنڈوں کو منظم نہیں کیا۔ اس نے برسر عام گالیاں نہیں دیں۔ اس نے لوگوں سے جھوٹے وعدے نہیں کیے۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ جھوٹے وعدوں کے فریب میں لوگ مبتلا ہورہے ہیں۔ کچھ لوگ ( مجھ سے) کہہ رہے تھے کہ: ’’ کچھ نہ کچھ آپ کو بھی کرنا چاہیے۔ لیکن میں اس زمانے میں برابر لوگوں سے کہتا رہا کہ چاہے آپ کو ایک نشست بھی نہ ملے لیکن آپ سچائی کے راستے سے نہ ہٹیں۔ وہ وعدہ جسے آپ پورا نہ کرسکتے ہوں وہ
آپ نہ کیجیے۔ کوئی ایسا کام نہ کیجیے جس سے خدا کے ہاں آپ پر یہ ذمہ داری آجائے کہ آپ بھی اس قوم کے اخلاق بگاڑ کر آئے ہیں۔ آپ بھی اس قوم کو جھوٹ‘ گالی گلوچ اور دوسری اخلاقی برائیوں میں مبتلا کرکے آئے ہیں۔ جو ذمہ داری آپ پر آتی ہے وہ یہ ہے کہ جو اللہ اور رسول ﷺ کا بتایا ہوا راستہ ہے‘ اس کے مطابق کام کریں۔ آپ نے کوئی ٹھیکہ نہیں لیا ہے کہ اس ملک کے اندر ضرور ہی اسلامی نظام قائم کریں گے۔ اسلامی نظام کا قیام تو اللہ کی تائید اور توفیق پر منحصر ہے‘ اور اس قوم کی صلاحیت اور استعداد پر منحصر ہے‘ جس کے اندر آپ کام کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس قو م کو اس قابل سمجھتا ہے یا نہیں کہ اس کو اسلامی نظام کی برکتوں سے مالامال کرے‘ یا ان کو تجربوں کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے جن کی ٹھوکریں وہ آج کھا رہی ہے۔ آپ کا کام اللہ اور رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر محنت کرنا ہے‘ جان کھپانا ہے۔ اس میں اگر آپ کو تاہی کریں گے تو ماخوذ ہوں گے۔ اس میں اگر آپ کوتاہی نہیں کرتے تو خدا کے ہاں کا میاب ہیں خواہ دنیا میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں‘‘۔
قرآن پاک کی تفسیر تفہیم القرآن کی تکمیل
۷؍ جون ۱۹۷۲ء کو عالم بے بدل مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب نے ۳۱ سال کی مسلسل محنت اور تحقیق کے بعد قرآن پاک کی مایہ ناز اور عام فہم تفسیر’ تفہیم القرآن‘ مکمل کرلی۔ ۳۰؍ جون کو لاہور میں اس سلسلے میں ایک شاندار اور پروقار تقریب منعقد ہوئی‘ جس میں عظیم علمائے دین‘ دانشور اور قانون داں شریک ہوئے۔ مولانا محمد چراغ صاحب‘ مفتی سیاح الدین کاکا خیل‘ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور اے کے بروہی نے مولانا کواس تفسیری اور علمی کارنامے پر خراج تحسین پیش کیا۔ آخر میں مولانا مودودیؒ نے بھی خطاب کیا۔ اس تقریب میں سپریم کورٹ‘ ہائی کورٹ کے ججوں‘ وکلاء‘ پروفیسر‘ ادیب‘ صحافی‘ تاجر اور تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے کوئی تین ہزار سامعین شریک ہوئے۔
ڈاکٹر نذیر احمد کی شہادت
۸؍ جون ۱۹۷۲ء کو جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس عاملہ کے رکن‘ جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کے نائب امیر اور ڈیرہ غازی خان سے جماعت اسلامی کے منتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمدکو بعد نماز مغرب ‘ ان کے کلینک واقع ڈیرہ غازی خان میں دو حملہ آوروں نے گولی مارکر شہید کردیا اور فرار ہوگئے۔ ڈاکٹر نذیراحمد شہید‘ قومی اسمبلی کے اندر اور عوامی اجتماعات میں حکومت اور بھٹو صاحب پر کھلی تنقید کیا کرتے تھے ۔یہ ایک ایسی شخصیت تھی جو حکومت کے سامنے نہ دب سکتی تھی اور نہ بک سکتی تھی۔قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ڈاکٹر نذیر احمد کی تقریر نے ایوان اقتدار میں ایک زلزلہ برپا کردیا تھا۔وہ عوامی جلسوں میں بھٹو کی نام نہاد زرعی‘معاشی اور معاشرتی اصلاحات کی قلعی کھول رہے تھے۔جنوبی پنجاب کے جاگیر دارانہ اور قبائلی جبر کے علاقے میںایک آزاد آواز کس طرح برداشت کی جاسکتی تھی۔ ان کو برابر دھمکیاں ملتی رہی تھیں کہ یہ رویہ چھوڑ دو ورنہ جان سے ماردیاجائے گا۔ لیکن جابر حکمراں کے سامنے کلمہ حق کہنے والا مرد مومن سچ اور حق بات کہنے سے بلاخوف و خطر کبھی باز نہ آیا اور اپنا فرض انتہائی دیانت داری سے ادا کرتے ہوئے شہادت کے رتبے پر فائز ہوا۔ حالات سے باخبر ہر شخص نے اسے سیاسی قتل قرار دیا۔ عوام کو جھوٹی تسلیاں دینے کے لیے گورنر پنجاب پر غلام مصطفی کھر نے جو حکومتی ایما پر خود قاتلوں کی پشت پر تھے بظاہرقتل کی عدالتی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا لیکن اس اعلان پر عمل درآمد کی کبھی نوبت نہیں آئی ۔
ڈاکٹر نذیر احمد شہید ایک ہر دل عزیز اور بے باک شخصیت تھے۔مختلف حکومتوں کے دور میں ان کے خلاف ۳۴ بے بنیادمقدمات قائم ہوئے انھیں ۳۱ مرتبہ جیل میں ڈالا گیا۔ اس قتل کا پورے ملک میں شدید ردعمل ہوا۔ ہر سطح پر اس کے خلاف احتجاج ہوا۔ڈیرہ غازی خاں شہر میں تین دن تک مکمل سوگ میں سارے بازار بند رہے۔
(جاری ہے)