مسئلہ حجاب کے سرکولر کا

398

 

عنایت علی خان

پنجابی مسلمان کے بارے میں علامہ اقبالؒ کے جو اشعار ایک کالم میں تازہ ہوئے ان کا پہلا مصرع تھا۔
’’مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت‘‘
اب ہم پاکستان کے دیگر صوبوں میں سے دو یعنی سندھ اور بلوچستان کے بارے میں، کیوں کہ اس قسم کا کوئی قول فیصل نہیں پاتے اس لیے اُن کے بارے میں فی الحال یعنی تاوقتیکہ اس نوعیت کا کوئی معتبر قول ملے، ہم کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں لیکن خیبرپختونخوا کے بارے میں ایک حالیہ واقعے کے حوالے سے یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ وہاں کے رہنے والے یعنی پختون بھائی (بھائی رواروی میں نہیں لکھا ہے۔ میں خود بھی نہ صرف یہ کہ پٹھان ہوں بلکہ ذات کا ترین یعنی پٹھان ترین ہوں) سیدھے سادے مسلمان ہوتے ہیں۔ واقعہ جس سے ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے ایک اخباری اطلاع کے مطابق یہ ہے کہ وہاں کے محکمہ تعلیم کے کسی افسر اعلیٰ نے غالباً اپنے دینی پس منظر اور اپنے وزیراعظم کے اس اعلان کے تحت کہ پاکستان کو مدینے جیسا بنایا جائے گا اور مزید اغلب اس بنا پر بھی کہ گئے وقتوں میں جب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت تھی جماعت اسلامی نے علیحدگی کی دھمکی دے کر سیکولر نصاب تعلیم میں دینی اعتبار سے تبدیلی کرائی تھی۔ مختصر یہ کہ ان تین وجوہ سے افسر مذکور نے ایک سرکولر جاری کردیا کہ تعلیمی اداروں میں آنے والی لڑکیاں باحجاب آیا کریں۔ اب اس سے بڑھ کر جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں سیدھا سادا مسلمان ہونے کی کیا دلیل ہوسکتی ہے تو جناب یہ اطلاع آناً فاناً اوپر نیچے تک جنگل کی آگ کی طرح روشن خیال اور بقول جنرل مشرف پاکستان کا سافٹ چہرہ بنانے کے متمنی افراد کے دلوں میں پھیل گئی اور متبعین سلیکٹڈ یوٹرنر نے اس وحشت ناک خبر کا نوٹس لیا۔ انگریز کا دورِ حکومت ہوتا تو تھانے میں رپٹ لکھوائی جاتی بمعداق شعر اکبر۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
مزید یہ کہ اگر آج کے دور میں تھانے میں رپٹ لکھوائی بھی جاتی تو، لیکس اور بلدیہ فیکٹری کی آتش زنی کے مقدمات کا فیصلہ آنے تک تو جن طالبات کے لیے سرکولر جاری کیا گیا تھا اُن سے آگے بڑھ کر ان کی لڑکیوں میں مرض سرایت کرچکا ہوتا۔ چناں چہ اس تشویش ناک صورت حال کا فوری نوٹس لیا گیا۔ صورت حال اور وفاقی وزیر قانون تک بات پہنچادی گئی اور موصوف نے اپنے دست شفقت سے مظلوم بچیوں کے سر سے یہ حجاب نوچ پھینکا اور تفتیش کا حکم جاری کیا کہ یہ سرکولر کس کندئہ ناتراشیدہ افسر کی فرسودہ خیالی کا مظہر تھا۔ معلوم کیا جائے اور اس کی تربیت کے لیے سرکاری طور پر اہتمام کیا جائے کہ اسے عمومی طور پر ٹی وی کے صبح کے پروگرام دکھلائے جائیں۔ جن پر لڑکے اور لڑکیاں بے تکلفانہ طور پر قہقہہ بار چہلیں کرتے ہیں اور خاص طور پر وہ اشتہارات جن میں نوجوان اور لڑکی میں چند سینٹی میٹرز کا فاصلہ در آئے یا نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے نیم عریاں رقص کے مناظر نظر نواز ہوں یہ پروگرام اسے پولیس تھانے میں بٹھا کر چھترول کے خوف کے تحت لازماً دکھلائے جائیں اور اقدامات کے نتائج سے محکمہ تعلیم کے صوبائی و وفاقی افسران زیریں وبالا کو ہفتہ وار مطلع کیا جائے۔ پھر اگر یہ اقدامات افسر مذکور کی ذہنی ساخت جو ظاہر ہے ٹیڑھی ہے اسے سیدھی کرنے سے قاصر رہیں تو اسے بلانوٹس دیے بیک بینی ودوگوش ذمے داری سے سبکدوش کرکے افسران زیرین و بالا صوبائی و وفاقی وزیرتعلیم کو مطلع کیا جائے۔ نیز محکمہ تعلیم صوبہ پختونخوا کو وفاق کی جانب سے تاکید کی جاتی ہے کہ پورے محکمے میں بشمول تدریسی و غیر تدریسی اعلیٰ وزیریں جملہ افراد کار کو نفسیاتی جائزے کے عمل سے گزارا جائے اور جن افراد کارمیں مذکورہ بالا مرض کے رجحانات پائے جائیں برائی کو پنپنے سے پہلے ختم کرنے کے اصول کے تحت اُن کی ذہنی سوچ کے لیے ابتداً انہیں لازماً نیلام گھر جیسے مخلوط و بے تکلفانہ پروگرام ہفتے میں کم از کم تین دکھائے جانے کا اہتمام کیا جائے۔ نیز اس سلسلے میں نیپرا اور میڈیا ہائوس سے ممکنہ تعاون حاصل کیا جائے۔ مزید برآں مذکورہ تمام امور کا سرکولر نہ صرف محکمہ تعلیم پختونخوا بلکہ وفاق کے دیگر محکمہ ہائے تعلیم کی بھی اطلاع اور رہنمائی کے لیے ارسال کیا جائے۔ سرکولر کے اختتام پر اکبر الٰہ آبادی کی یہ پیشگوئی بھی درج کرنا مفید مطلب ہوگا۔
یہ موجودہ طریقے راہی ملک عدم ہوں گے
نئی تہذیب ہوگی اور نئے ساماں بہم ہوں گے
نہ خاتونوں میں رہ جائے گی یہ پردے کی پابندی
نہ گھونگٹ اس طرح سے حاجب روئے صنم ہوں گے
پس نوشت:اگر سابقہ دور جس کا ذکر سرکولر میں ہے اس میں تشکیل کردہ نصاب میں کلام اقبال شامل ہو تو اسے نصاب سے خارج کیا جائے، کم از کم علامہ کے اس بے ہنگم شعر کو تو لازماً حذف کیا جائے۔
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
مزید برآں اس سرکولر کی ترسیل میں ذرا تاخیر روا نہ رکھی جائے کیوں کہ ابھی گزشتہ دنوں ہی عالمی سطح پر یوم حجاب منایا گیا ہے جس میں پاکستان کی خواتین نے نہایت گمراہ کن تحریک چلائی ہے جس نے فضا کو خاصا مسموم کیا ہے۔
(ایک ادرپس نوشت : 5 اکتوبر کے اخبار کی خبر ہے کہ مردان کی تحصیل رستم میں طالبات میں برقعے تقسیم کیے گئے۔ یونین کونسل کے سابق ڈسٹرکٹ ممبر کی طرف سے ضلعی فنڈ سے اسپیشل برقعے بنوائے گئے۔ ضلعی کونسلر مظفر شاہ نے ایک لاکھ روپے کا فنڈ فراہم کرنے کے بعد کہا کہ برقع ہمارے علاقے کی روایت ہے اس لیے اسکول کی طالبات کو برقعے دیے گئے۔ کیسے نافرمان لوگ ہیں۔ حکمرانوں کی عقل پر پڑا ہوا پردہ بھی نظر نہ آیا۔)