طاقت کا نشہ کب اُترے گا

489

پاکستانی معاشرے میں طاقت کو عزت دینے کے نقصانات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ حالیہ واقعے میں ایک اور بگڑے شہزادے کے گارڈ زنے راستہ جلدی نہ دینے پر ایک نوجوان کی پٹائی لگا دی… یہ رویہ محض اس لیے ہے کہ پولیس کے ہاتھ پائوں کاٹ دیے گئے ہیں یا اس کا اس قدر سیاسی استعمال کیا گیا ہے کہ اب اس کے افسران بھی قانون نافذ کرنے کے بجائے طاقت کو سلام کرتے ہیں ۔ تازہ واقعے میں شاہ زین بگٹی کے گارڈز نے نوجوان کومحض اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا کہ اس نے ان کی مرضی کے مطابق فوری طور پر راستہ نہیں دیا تھا ۔ زخمی لڑکے نجم کی والدہ کا بیان ہے کہ پولیس والے وہاں موجود تھے لیکن انہوں نے مد اخلت نہیں کی ۔ اگرچہ شکایت پرپولیس حکا م نے کارروائی کی اور ڈرائیور و دیگر افراد کو گرفتار کر لیا ہے ۔زین بگٹی شہرمیں نہیں ہے پھر بھی ان کے گارڈز اورڈرائیور نے یہ حرکت کی ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر شاہ زین گاڑی میں ہوتے تو نوجوان کا کیا حشرہوتا ۔ اب ایس ایس پی سائوتھ ثبوت تلاش کریں گے اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد لیں گے ۔ اس بات کو اگر الٹا کر دیا جائے کہ شاہ زین بگٹی یا کسی با اثر شخص کی جانب سے یہی الزام لگایا گیا ہوتا تو کیا پولیس ثبوت تلاش کرتی اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی زحمت کرتی … اس ملزم کو تو ہاتھ پائوں توڑکر پھینک دیا ہوتا ۔ جب شاہ زین بگٹی کراچی پہنچیں گے تو خدشہ یہی ہے کہ ان کا عملہ با عزت رہائی پا جائے گا اور جس نوجوان پر تشدد ہوا ہے اسے دھمکیاں مل جائیں ۔ جس اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی اسی میں ایک اور خبر بھی شائع ہوئی ہے جس میں سابق چیف سیکرٹری پولیس افسران کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پولیس افسران پریشر گروپ کا کام نہ کریں ۔ سرکاری ملازمین کا کام عوامی مفادات کا تحفظ ہے ۔ لیکن یہ چیف سیکریٹری سابق ہونے کے بعد یہ مشورے کیوں دے رہے ہیں ؟اگر انہوں نے اس وقت پولیس کے غلط استعمال پر توجہ دی ہوتی جب وہ چیف سیکریٹری تھے تو آج صورتحال کہیں بہتر ہوتی ۔ اپنے دور میں تو پوری دلجمعی کے ساتھ پولیس افسران کو ایم کیو ایم،پی پی اور حکمرانوںکا پریشر گروپ بنایا جاتا تھا ۔ اب جو صاحب آئی جی ہیں وہ کہتے ہیں کہ پولیس کو پروفیشنل بنایا جائیگا تو اس جانب قدم بڑھائیں ۔ طاقت کو سلام کرنے کے بجائے قانون کی طاقت منوائیں۔