سرنڈر یا جنگ… غازی یا شہید کیوں نہیں؟

629

 

 

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ سرنڈر یا جنگ، میرا ایمان ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، بھارت نے کچھ کیا تو ہم آخر دم تک لڑیں گے، نتائج سوچ سے کہیں زیادہ ہوں گے، عالمی برادری نے مداخلت نہ کی تو 2 ایٹمی ملک آمنے سامنے ہوں گے۔ اگر جنگ ہوئی تو ایٹمی جنگ ہوگی، یہ دھمکی نہیں وارننگ ہے، پاکستان آخری حد تک جائے گا، اسلامو فوبیا مغرب نے پھیلایا ہے، خواتین کا حجاب پہننا مشکل ہوگیا ہے، اس کا تدارک کرنا ہوگا، بھارت یا انصاف دنیا ایک کا انتخاب کرے، انسانیت پر تجارت کو فوقیت دینا افسوسناک ہے، صرف 8 ہزار یہودی کشمیریوں کی طرح محصور ہوں تو یہودی برادری کیا کرے گی، کیا انہیں درد نہیں ہوگا، مودی نے 80 لاکھ کشمیریوں کو جانوروں کی طرح بند کر رکھا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
وزیراعظم عمران خان کا مذکورہ خطاب یقینا بہت اہم ہے۔ جنرل اسمبلی میں کسی رہنما کا یہ کوئی معمول کا خطاب نہیں تھا بلکہ اِس خطاب کے ذریعے عالمی برادری کے سامنے مسئلہ کشمیر کو مقدمہ پیش کرنا اور پاک بھارت کشیدگی کی موجودہ صورتِ حال کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کرنا تھا۔ علاوہ ازیں دیگر اہم عالمی تنازعات اور مسائل پر بھی پاکستان کی رائے، موقف اور تشویش سے عالمی برادری کو باخبر کرنا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے کافی حد تک پاکستان کے عوام کی خواہش اور سرکاری موقف کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے خطاب کو بھرپور بنانے کی کوشش کی تاہم وزیراعظم خان کے خطاب کو مکمل طور پر عوام کے جذبات، پاکستان کے مفادات اور عالم اسلام کی توقعات کے مطابق قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جب پاک بھارت کشیدگی انتہائی تشویش کی حد تک بڑھ چکی ہے، جنگ کے خطرات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر جو پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ ہے اُس پر بھارت کے فوجی قبضے کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا، جب کہ مقبوضہ وادی کے عوام بھی کسی صورت بھارتی قبضے اور بالادستی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ردعمل، کشیدگی، تنائو اور تشدد کے اِس ماحول میں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ ’’ہمارے پاس دو راستے ہیں، ’’سرنڈر یا جنگ‘‘ یعنی ’’سرنڈر‘‘ کا لفظ استعمال کرکے وزیراعظم بھارت اور اُس کے اتحادیوں کو یہ کھلا پیغام دے رہے ہیں کہ جنگ کے علاوہ ہمارے پاس ’’سرنڈر‘‘ کا آپشن بھی موجود ہے، تاہم اگلے جملے میں آخر دم تک لڑنے کی بات ضرور کی گئی لیکن سمجھنے والے سمجھ گئے کہ وزیراعظم عمران خان کے پاس ’’سرنڈر‘‘ کا راستہ بھی موجود ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب پاکستان حالتِ جنگ میں ہو، مقبوضہ کشمیر کے عوام آزادی یا موت کے درمیان کھڑے ہوں اور دشمن پوری قوت اور ناپاک ارادوں کے ساتھ پیش قدمی کررہا ہو، عالمی سامراجی قوتیں دشمن (بھارت) کو تھپکی دے رہی ہوں تو ایسے میں ’’سرنڈر‘‘ کا راستہ بتا کر کس کو کون سا پیغام دیا جارہا ہے؟۔ کیا وزیراعظم کو ’’سرنڈر‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوا کہ بھارت اس لفظ پر کتنا خوش اور پاکستان کے عوام کو کس قدر شرمندگی ہوگی جب کہ وزیراعظم صاحب کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے تھا کہ اس سے پہلے جنرل نیازی ’’سرنڈر‘‘ کے شرمناک فیصلے پر عمل کرچکے ہیں کہ جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا اور مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلاادیش بن گیا تو کیا ڈھاکا کے پلٹن میدان میں جنرل اے کے نیازی نے بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے جو ’’سرنڈر‘‘ کیا تھا اُس سرنڈر جیسے ممکنہ سرنڈر کی اطلاع جنرل اسمبلی کو وزیراعظم عمران نیازی صاحب بھی دے رہے ہیں۔
علاوہ ازیں یہ بات بہت اہم ہے کہ ’’سرنڈر‘‘ مسلمانوں کی جنگی یا جہادی تاریخ کا کبھی حصہ نہیں رہا۔ مدمقابل کس قدر طاقتور اور خوفناک کیوں نہ ہو، سرنڈر کے آپشن پر کبھی غور نہیں کیا گیا۔ بدر، احد، خیبر، موتہ، یرموک اور کربلا کے میدان میں کئی گنا زیادہ لشکروں سے مقابلہ کیا گیا۔ بازوکٹ گئے، تلواریں ٹوٹ گئیں، سر نیزوں پر بلند ہوگئے مگر سرنڈر کے لفظ کو سننا تک پسند نہ کیا گیا۔ ابوجہل سے کی تاریخ میں ’’اہل حق‘‘ ہی کو فاتح قرار دیا گیا۔ تاہم اللہ کے رسولؐ، خلفائے راشدین اور نواسہ رسولؐ کے بعد جب عام مسلمان بھی میدان جنگ میں اُترتے تو انہوں نے بھی ’’سرنڈر‘‘ کے آپشن پر کبھی غور نہیں کیا۔ محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، موسیٰ نصیر، سلطان صلاح الدین ایوبی، سلطان محمد فاتح، سلطان محمود غزنوی اور ٹیپو سلطان کی تاریخ گواہ ہے کہ دشمن اپنی تمام تر طاقت اور عددی اکثریت کے باوجود مسلمان مجاہدین کے سامنے ٹھیر نہ سکا۔ بیت المقدس سے سومناتھ کے مندر تک کا جنگی منظر بھی کیا خوب ہے کہ جہاں مسلمان مجاہدین نے صلیب اور بت کو ایک ہی ضرب میں پاش پاش کردیا۔ مذکورہ واقعات کو اگر وزیراعظم عمران خان دور کی تاریخ سمجھتے ہیں تو آئیے وزیراعظم اور اُن کے رفقا کو قریب کی تاریخ کا باب دکھا دیتے ہیں۔ برطانیہ، سوویت یونین (روس) امریکا اور ناٹو ممالک آج کے دور میں سب سے طاقتور افواج کے حامل ممالک تھے اور ہیں، مگر جب یہ افغانستان جیسے غریب اور پسماندہ ملک پر حملہ آور ہوئے تو افغان مجاہدین اور عوام نے ایک اللہ کے بھروسے پر اِن تمام جارح قوتوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ مسلمانوں کی شاندار تاریخ جو بدر، احد، خیبر، موتہ، یرموک اور کربلا سے گزرتی ہوئی افغانستان تک جارہی ہے اس میں ’’سرنڈر‘‘ کا راستہ کبھی اختیار نہیں کیا گیا۔ ہر دور اور ہر میدان میں مسلمان مجاہدین ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے میدان جنگ میں اُترے اور جس کا اختتام غازی یا شہید پر ہوا۔ تاریخ اسلام میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ ’’سرنڈر‘‘ بھی کوئی راستہ ہو، جب کہ غیرت اور ایمان بھی اِس طرح کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتے، جب کہ جنرل نیازی کی تاریخ کو بھی پاکستان اور عالم اسلام کے مسلمان سیاہ باب قرار دیتے ہوئے مسترد کرچکے ہیں۔
وزیراعظم صاحب نے کہا کہ اگر 8 ہزار یہودی کشمیریوں کی طرح محصور ہوجائیں تو یہودی برادری کو کتنی تکلیف ہوگی۔ بالکل ٹھیک بات ہے تاہم اس سے بھی بہتر بات یہ ہوتی کہ اسرائیل کے قبضے میں مسلمانوں کے قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ کی بازیابی کی بات کی جاتی۔ مقبوضہ بیت المقدس جو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے اُس میں موجود امریکی سفارت خانے کی مذمت اور منتقلی کا مطالبہ کیا جاتا۔ بھارت میں شہید بابری مسجد کے ملبہ کا ذکر کرتے ہوئے بھارت کو یہ یاد دلانا چاہیے تھا کہ ہندوستان کے اندر 22 کروڑ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ’’محفوظ مستقبل‘‘ کے لیے نئی تجاویز پر غور ہوسکتا ہے۔ حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ ریاستوں سے لال قلعہ دہلی کی دیواروں تک کی تاریخ مسلمانوں کو متوجہ کررہی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم ابھی باقی ہے، اگر مشرقی پاکستان ٹوٹ سکتا ہے تو بھارت ماتا کے بھی حصے بخرے ہوسکتے ہیں۔ بھارت کی سلامتی کی ضمانت مودی سرکار کے پاس نہیں مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ہاتھ میں ہے، جس طرح مشرقی وسطیٰ میں ’’امن‘‘ کی کنجی اسرائیلی وزیراعظم کے پاس نہیں بلکہ ’’مسجد اقصیٰ‘‘ کے امام کے پاس ہے۔
’’عالمی برادری‘‘ سے بار بار اپیلیں کرنا بھی داخلی و اعصابی کمزوری کی علامت ہے۔ عالمی برادری سب جانتی ہے، ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے، ہم دُنیا کی بہترین فوج رکھتے اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود مقبوضہ کشمیر سے محض کرفیو نہیں اُٹھواسکتے، کشمیری بہنوں کے سر پر دوپٹا نہیں رکھ سکتے، کشمیری بچوں کے پیلٹ گنوں سے خون آلود چہرے صاف نہیں کرسکتے، ہمارا یہ کردار افسوسناک اور شرمناک ہے۔ ایٹمی جنگ کے خطرے کا بار بار ذِکر کرنے اور آخر دم تک لڑنے کی بات دہراتے رہنے سے نہ جنگ ہوگی اور نہ ہی آزادی ملے گی، بلکہ وزیراعظم کے مذکورہ الفاظ کی مسلسل تکرار اب بزدلی کے زمرے میں محسوس ہونے لگی ہے، کیوں کہ اُس دھمکی کی کوئی حیثیت نہیں جس کو دشمن سنجیدہ نہ لے بلکہ میڈیا کی خبروں سے تو یہ معلوم ہونے لگا ہے کہ وزیراعظم کے مذکورہ خطاب کے بعد مقبوضہ وادی میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے مظالم مزید بڑھ گئے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے، بھارت کو کہاں سے شہے مل رہی ہے، مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے حکومت پاکستان کو جو فوجی ردعمل دینا چاہیے تھا وہ کیوں نہیں دیا جارہا؟۔
بہرحال وزیراعظم عمران خان کا جنرل اسمبلی میں کیا جانے والا مذکورہ خطاب کئی حوالوں سے نامکمل تھا جس میں بھارت کو پسپا کرنے اور صدر ٹرمپ کو پریشان کرنے کے لیے وہ کچھ نہیں کہا گیا جو کچھ کہنا بہت ضروری تھا۔ جنگ کے ساتھ ’’سرنڈر‘‘ کا لفظ استعمال کرکے وزیراعظم عمران خان نے ثابت کردیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو جہاد یا جنگ کے ذریعے آزاد کرانے کی صلاحیت اور ارادوں سے محروم ہیں جب کہ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کا اب ایک ہی حل ہے کہ غازی یا شہید۔
ہم اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے ’’جہاد‘‘ کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس کی آخری منزل غازی یا شہید ہو۔