کراچی شپ یارڈ تباہی کے دھانے پر

386

شدید بحرانوں سے گزر کر ملک کی جہاز سازی کا واحد ادارہ پچھلی دہائی میں بہترین انتظامی صلاحیتوں کے باعث منافع دینے والا واحد ادارہ بن گیا تھا۔ منسٹری ڈیفنس پروڈکشن میں یہ واحد ادارہ تھا جو مسلسل منافع میں چلنے لگا، ملازمین خوشحال ہوئے، بونس، تفریح الائونس، منافع میں حصہ داری کے ثمرات ملازمین کو ملنے لگے۔ اس ادارہ نے اربوں روپے کے بینک بیلنس بنالیے تھے۔ ادارے میں جہاز سازی کے لیے جگہ کم پڑ گئی، بیرون دنیا میں یہ خبر حیرت ناک تھی کہ پاکستان میں جہاز سازی تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ اب انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ انتظامی قیادت نان ٹیکنیکل اور نان پروفیشنل شخصیت کے باعث یہ ادارہ تیزی سے تباہی کی طرف گامزن ہے موجودہ قیادت کا سارا زور کراچی شپ یارڈ ایم ڈی ہائوس کی تزئین و آرائش پر گامزن ہے، سرکاری رہائش گاہ کو محل کی شکل دی جارہی ہے، روپیہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے، ادارے کو کارخانے کی شکل سے نکال کر نرسری بنادیا گیا ہے، پھول پھلواریاں لگا کر در و دیواروں کو چمکایا جارہا ہے، سرکاری ڈبل کیبن گاڑی ایم ڈی کی فیملی نجی محفلوں کے لیے استعمال کررہی ہے، جہاز سازی کے کنٹریکٹ کینسل ہورہے ہیں، دو بڑے جہاز، MPV، OPV جو کراچی شپ یارڈ کو مل چکے تھے وہ نااہلی کے باعث باہر چلے گئے اب وہ چائنا اور رومانیہ میں زیر تعمیر ہیں۔ جب کہ چائنا کے تعاون سے بننے والے فریگیٹ دو جنگی جہاز کراچی شپ یارڈ میں بننا تھے اب چائنا میں ہی بنیں گے۔ کراچی شپ یارڈ کے ورکرز 6 ماہ سے خالی بیٹھے ہیں، جہاز سازی کا کام تعطل کا شکار ہے۔چائنا کے تعاون سے بننے والی سب میرین جو کہ دنیا کا سب سے بڑا مالیاتی پروجیکٹ ہے، اندازے کے مطابق 6 ارب ڈالرز کا یہ پروجیکٹ جس میں 2 سب میرین پاکستان اور دو چائنا میں تیار ہوں گی یہ بھی انتہائی خطرناک زون میں جارہا ہے۔ اس کی تیاری کے لیے مشینری کی تنصیبات اور سول کنسٹرکشن کا کام اکائونٹس کی بے قاعدگیوں کی وجہ سے رکاوٹوں کا شکار ہے۔ جون میں ڈیڑھ ارب روپے آئے وہ کہاں استعمال ہورہا ہے پتا نہیں۔ سپلائرز و ٹھیکیداروں کو 6 ماہ، 8 ماہ پے منٹ نہیں ہورہی، اس کا سارا اثر براہ راست بننے والی سب میرین کی ڈیلیوری ڈیٹ اور شیڈول کو متاثر کرے گا یہ کام ابتدا ہی سے اتنا لیٹ کیا جارہا ہے کہ لگتا ہے یہ عظیم الشان پروجیکٹ تعطل کا شکار ہو کر چائنا کہہ بیٹھے گا کہ یہ تمام کام ہم چائنا میں ہی کریں گے۔ اس طرح پاکستان کا یہ پروجیکٹ جو یہاں کی سینئر مینجمنٹ، حکومتی اراکین اور اعلیٰ نیول قیادت کی عمدہ کاوشوں کا مظہر تھا کراچی شپ یارڈ کی انتظامی نااہلی کا شکار ہو کر یہ پروجیکٹ بند ہوسکتا ہے جو عظیم خسارہ اور ملک کی بدنامی کا سبب ہوگا۔ دوسری قابل ذکر بات اس پروجیکٹ پر فریش بھرتی کرکے ناتجربہ کار افراد کی ٹیم چائنا ٹریننگ کے لیے بھجوائی گئی جس کے بارے میں خبریں ہیں کہ چائنا نے ان افراد پر عدم تحفظ کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ناتجربہ ادارے کی بربادی کے عناصر میں جہازوں کی کنٹریکٹ لانے میں ناکامی، کاروباری و انتظامی گرفت میں ناکامی، غیر پیداواری امور میں مصروف رہنا ہے اس کے علاوہ ایک بڑا کردار بڑے پیمانے پر بھرتیاں ہیں، بھرتیوں میں اقربا پروری عروج پر ہے، صرف ایک ہمسایہ ادارے سے ملازمین کو فوقیت دی جارہی ہے جو وہاں 25 سال گزار کر پنشن لے کر کراچی شپ یارڈ میں بڑی بڑی تنخواہوں اور سہولیات کے ساتھ بھرتی کیے جارہے ہیں، گاڑیاں پیٹرول کی نوازشیں ساتھ ہیں، بھرتی والے حضرات کہتے ہیں کراچی شپ یارڈ ہمارے لیے جنت ہے۔موجودہ بے قاعدگیوں میں مرکزی کردار فنانس ڈیپارٹمنٹ کا ہے جو ایک ناتجربہ کار چھوٹے اسسٹنٹ منیجر کے حوالے کردیا گیا ہے، اس ناتجربہ کار اور نااہل افسر کی وجہ سے ادارہ کا ہر شعبہ شدید متاثر ہے، ادارہ کی ساکھ ملک میں رسوا ہوگئی ہے، سپلائرز و ٹھیکیدار اپنا سرمایہ ادارے کی ترقی کے لیے لگانے سے گریزاں ہیں جبکہ انتظامی عیاشیاں اور بدعنوانیوں کو شیلٹر بھی یہی بندہ فراہم کرتا ہے۔ادارے کی قیمتی زمین پر ورکشاپس بنانے کے بجائے پودوں کے لیے نرسریاں بنادی گئی ہیں جہاں مالی بھرتی کیے گئے ہیں۔ ملازمین کی گاڑیاں باہر کھڑی کرنے کی ہدایت ہے، منیجر سے نیچے ملازمین جو مشترکہ طور پر چندہ کرکے گاڑیوں میں بیٹھ کر آتے تھے ان کو ہدایت ہے کہ ایک کلو میٹر دور گاڑی کھڑی کرکے پیدل آئیں۔ غیر قانونی طور پر ورکرز کے کینٹین کے کھانے کا ریٹ 4 گنا کردیا گیا ہے، اب مزدور چار کوپن دے کر ایک کھانا لیتا ہے۔ شپ ریپیئر میں جہاں جہازوں کی مرمت ہوتی ہے انتظامی غفلت کی وجہ سے خوفناک آگ لگی، مرمت کے لیے آنے والا جہاز جل کر ناکارہ ہوگیا اور جہاز انتظامیہ نے 5 ارب روپے ہرجانہ کا نوٹس ادارہ کو دے دیا۔ اس کے حقائق اور تحفظ کا شعور موجودہ انتظامیہ کو نہیں، اس طرح ادارہ مزید تباہی سے دوچار ہورہا ہے۔کنٹریکٹ ملازمین 10 تا 15 سال سے ادارے کی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کو سپریم کورٹ کے آرڈر کے باوجود مستقل نہیں کیا جارہا۔ EOBI کی مد میں انتظامیہ نے 20 کروڑ روپے ملازمین کے خرد برد کرلیے اور EOBI میں جمع نہیں کرائے۔ جس کے باعث EOBI پنشن کی مد میں صرف ساڑھے 6 ہزار روپے ملازمین کو دے رہی ہے۔ اگر ادارہ یہ رقم EOBI کو جمع کرادے تو اُن کی پنشن ساڑھے 12 ہزار روپے ہوجائے گی۔ ادارے کے سروس رولز میں غیر قانونی تبدیلی کرلی گئی ہے جو کہ یونین اور انتظامیہ ایگریمنٹ کی صریح خلاف ورزی ہے اور کورٹ میں چیلنج کیے جاسکتے ہیں۔ نااہل انتظامیہ، مارکیٹنگ کا نہ ہونا، فنانس ڈیپارٹمنٹ کی بدعنوانیوں پر پشت پناہی، بھرتیوں میں اقربا پروری، ملازمین پر بے تحاشا جبر، سروس رولز میں تبدیلیاں، ادارہ کو جلد تباہی سے دوچار کردے گی۔ حکومتی اراکین، وزیراعظم پاکستان، نیول چیف آف اسٹاف اور چیئرمین نیب سے التماس ہے کہ ملک کے واحد جہاز سازی کے ادارے کو ڈوبنے سے بچائیں اور تجربہ کار ٹیکنیکل پروفیشنل انتظامیہ ادارے میں تعینات کریں۔ ان شاء اللہ یہ ادارہ ماضی کی طرح پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔
(مرسلہ: حاجی احمد خان۔ سابق مزدور رہنما، کراچی شپ یارڈ)
(اس سلسلے میں اگر کوئی فریق اپنا موقف پیش کرے تو اسے بھی شائع کیا جائے گا)