کشمیر: ایٹمی فلیش پوائنٹ

158

سمیع اللہ ملک

کشمیرکی صورتِ حال صاف بتارہی ہے کہ تہذیبوں کی بنیادپرقائم دنیا کیسی دکھائی دیتی ہے۔بین الاقوامی قانون کوجوتے کی نوک پررکھنے کے حوالے سے مودی،نیتن یاہواورٹرمپ ایک صف میں کھڑے ہیں۔
اہلِ کشمیرکوآزادی یاحق خودارادیت سے محروم کرنے کے حوالے سے مودی کے حالیہ اقدام کاتاریخی اعتبار سے درست اندازہ لگانے کے لیے ہمیں1952ء میں تب کے بھارتی وزیراعظم نہرو کے الفاظ پرغورکرناہوگاکہ کشمیر بھارت کی جاگیرہے نہ پاکستان کی،یہ توکشمیریوں کاہے۔ جب جموں وکشمیرکاپاکستان سے الحاق کیاگیاتھاتب ہم نے کشمیری قیادت اورعوام دونوں پر واضح کردیاتھاکہ ہم حرفِ آخرکے طورپروہی بات مانیں گے جواستصواب رائے میں کہی گئی ہوگی۔ اگر کشمیری ہم سے کہیں گے کہ کشمیرسے نکل جاؤتوہم ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے وہاں سے نکلنے میں ذراسی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ہم نے معاملہ اقوام متحدہ تک پہنچایاہے اوریہ عہدبھی کیاہے کہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے حوالے سے عالمی برادری کے فیصلے کامکمل احترام کیاجائے گا۔ایک عظیم ملک ہونے کے ناتے ہم اس معاملے میں وعدہ خلافی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
بھارت میں برطانوی راج ختم کرانے کی تحریک میں نہرو پیش پیش رہے۔جنوبی ایشیاکے امورکے ماہرولیم ڈیلرمپل کے الفاظ میں مودی ملک کوجدیدخطوط پرایک حقیقی روادار، جمہوری قومی ریاست کی شکل دینے کاخواب دیکھنے والے اپنے قائدین کی امنگوں اورآرزووں سے بہت دورلے گئے ہیں۔ مودی نے جوکچھ کیااس کے عواقب کاانہیں بھی خوب اندازہ تھا۔ انہوں نے جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے دراصل آگ سے کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ سابق امریکی صدرکلنٹن نے کشمیرکو دنیاکاخطرناک ترین علاقہ قراردیاتھا۔ میڈیاکے بھارتی اداروں نے رائے عامہ کے جن جائزوں کااہتمام کیاہے ان میں دوتہائی سے زائد کشمیریوں نے آزادی کی خواہش کااظہارکیاہے۔
مودی نے اندازہ لگایاتھاکہ انتہاپسند ہندوؤں کے حملوں کاسامناکرنے والے بھارتی مسلمان جموں وکشمیرکے حوالے سے ان کے اقدام کومستردکردیں گے۔مودی نے جموں و کشمیر میں دس ہزاراضافی فوجی تعینات کیے، سیاسی قائدین کوپابندِسلاسل کیا، سیاحوں اورزائرین کووادی سے نکل جانے کاحکم دیا،تعلیمی ادارے بندکیے اورفون سروس اورانٹرنیٹ دونوں پرپابندی عائد کردی۔
مودی کے اقدام کا وقت بھی ایسا ہے کہ نظراندازنہیں کیا جاسکتا۔ یہ اقدام ٹرمپ کی طرف سے کشمیرکے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کے فوری بعد کیاگیاہے۔ یہ پیشکش بھارت نے یکسرمستردکردی تھی۔ بھارت کوامریکااورطالبان کے درمیان مذاکرات بھی ایک آنکھ نہیں بھائے۔بھارت جانتاہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی اوراقتدارممکنہ طورپرطالبان کے ہاتھ میں آجائے گا۔ ایساہواتوافغانستان میں پاکستان کی پوزیشن ایک بارپھرمستحکم ہوجائے گی اوربھارت کے لیے مشکلات پید ا ہوں گی جووہاں اچھی خاصی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔
نہرونے عظمت کاتصوربھارتی قوم پرستی سے وابستہ کیاتھا۔ مودی نے عظمت کونئے سیاق وسباق میں پیش کرنے کے لیے اسے ہندوقوم پرستی سے نتھی کردیاہے۔ان کے پیش رووں نے کشمیرکے حوالے سے جوقانونی،سیاسی اوراخلاقی وعدے کیے تھے انہیں لپیٹ کرایک طرف رکھ دیاگیاہے۔مودی کاشمار ان سفاک قائدین میں ہوتاہے جواپنے ملک کی سرحدوں کوتاریخی سیاق وسباق میں بیان کرتے ہیں۔ وہ ہندوتہذیب کی نمایندگی بین الاقوامی طورپرتسلیم شدہ سرحدوں،آبادی یازبان کے بجائے وسیع ترتاریخی تناظر میں بیان کرتے ہیں۔ یہ تہذیبی موقف دوسروں کے حقوق کوصریحامستردکرتاہے۔اس معاملے میں مودی اورنیتن یاہومیں کوئی فرق نہیں۔ گوکہ1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں جن فلسطینی علاقوں پراسرائیلی افواج نے قبضہ کیاتھاانہیں اسرائیل میں نیتن یاہو کے پیش رووں نے شامل کیا تھا۔
مودی کوامریکی صدر ٹرمپ سے شہ ملی ہی جنہوں نے اردن سے جیتے ہوئے مشرقی بیت المقدس اورشام سے جیتی ہوئی گولان کی پہاڑیوں کواسرائیل کاباضابطہ حصہ بنانے کے عمل کی توثیق کی اوریوں غرب اردن میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کو بھی قانونی طورپردرست تسلیم کرلیا۔ ٹرمپ،مودی اورنیتن یاہونے ثابت کردیاہے کہ وہ سفارت کاری کے ساتھ قومی ریاست کے اس تصورکوبھی بالائے طاق رکھیں گے،جو1648ء کے ویسٹ فیلیا معاہدے میں پیش کیاگیاتھا۔ یہ تمام رہنما قومی، اقلیتی،نسلی،مذہبی اوربنیادی انسانی حقوق کو نظراندازکرنے کے حوالے سے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔یہ تمام قائدین اِس وقت اپنی ظلم وستم اورناانصافی پرمبنی پالیسیوں پرفخرمحسوس کرسکتے ہیں کہ اِنہوں نے کسی بھی سطح پر جوابدہی سے بہت بلند ہوکرنئے عالمی نظام کے ڈھانچے پر استعماری گوشت مڈھ دیا ہے۔ مودی کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کویکطرفہ طورپرختم کرکے اس نے ایک پرانا انتخابی وعدہ پوراکیاہے۔
توسیع پسندی کشمیرمیں ہویاپھرمقبوضہ فلسطینی علاقوں میںاِن سے قلیل المیعاداورطویل المیعاد بنیادپرتشددکی راہ ہموار ہوتی ہے،عوام میں بہت بڑے پیمانے پراضطراب جنم لیتاہے، جس سے بہت کچھ ہوسکتاہے اورسب سے بڑھ کریہ کہ ایسی توسیع پسندی سے پاکستان اوربھارت جیسے ممالک کے درمیان جوہری جنگ کے خطرے کاگراف بہت بلندہوجاتاہے ۔