(انتخابات‘ سقوط ڈھاکا اور بھٹو کا دورِ حکومت(باب دواز دہم

659

۲۔ ساری دنیاگواہ ہے کہ پاکستان اس وعدے اور اعلان کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ اس میں زندگی کا سارا نقشہ لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کی انقلابی بنیاد پر استوار کیا جائے گا اور اس سرزمین کو اسلامی نظام حیات کی عملی تجربہ گاہ بنایا جائے گا لیکن قیام پاکستان کے بعد نعرہ تو برابر اسلام ہی کا لگایا جاتا رہا لیکن عملاً یہاں اقتدار اور عہدوں کی جنگ ذاتی مفادات کے حصول کی کشمکش‘ فسق و فجور اور ظلم و ستم کے ہر شعبہ حیات میں فروغ اور دین و اخلاق سے بے پروائی کو زندگی کا محور بنا دیا گیا۔ شریعت اسلامی کو ملکی قانون بنانے کے بجائے اس کی راہ روکنے کی کوشش کی گئی اور اس میں تحریف کرنے کے لیے سرکاری ادارے قائم کیے گئے۔ معیشت اور معاشرت‘ قانون اور سیاست‘ تعلیم و تربیت اور تمدن و ثقافت‘ زندگی کے ہر میدان میں خدا اور اس کے رسول سے کھلی بغاوت کی روش اختیار کی گئی۔ یہاں شراب‘ جوئے اور جنسی آوارگی کو فواحش و بے حیائی اور اختلاط مرد و زن کو‘ لادین تہذیب اور اسلام کے عین ضد نظریات کو فروغ دیا گیا۔ یہ وہ اصل جرم ہے جس کی ہمیں یہ سزا ملی ہے اور یہی ہیں وہ حقیقی وجوہ ہیں جنہوں نے مل جل کر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی پوری عمارت کی جڑیں کھود ڈالیں اور دس کروڑ مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں سے بننے والے اس ملک کا صرف ۲۴ برس کے اندر شیرازہ منتشر کردیا جس قوم کے مختلف گروہوں نے بھی چند سال پہلے حقیقی بھائیوں کی طرح متحد ہوکر یہ ملک حاصل کیا وہ دیکھتے دیکھتے ایک دوسرے کے خلاف صف آراہوگئے اور ایک دوسرے کی جان و مال اور آبرو تک کے دشمن بن گئے۔
۳۔ پاکستان کے قیام کے بعد جو نظام تعلیم یہاں رائج رکھا گیا اس نے نئی نسلوں کو قیام پاکستان کے مقاصد اس کی ضرورت اس کے عالمگیر مشن اور اپنی قومی تاریخ و روایات سے حد درجہ بیگانہ کردیا۔
۴۔ جو ملک سرتا سر جمہور کی طاقت اور جمہوری طریقے سے وجود میں آیا تھا اس میں سیاست و حکمرانی کے طریقے اختیار کیے گئے جو جمہوریت کے صریحاً منافی تھے۔ صاف ستھری جمہوریت کے بجائے یہاں محلاتی سازشوں‘ فوجی انقلابات اور آمریت کا راستہ اختیار کیا گیا اور قوم کے نمائندوں کی حکومت کے بجائے یہاں کوتاہ اندیش بیورو کریسی‘ طالع آزما فوجی افسروں اور مفاد پرست سیاسی عناصر کا ایک ہی جتھا ٹیمیں بدل بدل کر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بنتا رہا۔ اس چیز نے ملک میں صحت مند سیاسی عمل و ارتقا کے دروازے بند کردیے۔ نیز ملک کے مختلف حصوں اور ملت کے مختلف طبقات کے درمیان حق انصاف قائم کرنے میں جو مجرمانہ تغافل برتا گیا اس نے ان کے اندر سیاسی و معاشی محرومیوں کو اور ان محرومیوں نے شدید قسم کی بے اعتمادیوں کو جنم دیا۔ یہاں جو بھی اقتدار پر آیا اس نے غربت و افلاس اورظلم و ستم کے شکار عوام کے مسائل کے حل کی فکر کرنے کے بجائے اپنے ہی مفاد کی پوجا کی جس سے علاقائی اور نسلی تعصبات کی آگ اند ر ہی اندر سلگتی اور پھیلتی چلی گئی یہاں تک کہ اس نے بڑھتے بڑھتے ملک کو ایک خوفناک آتش فشاں میں تبدیل کردیا۔ کیسے ممکن تھا کہ پورے کرہ ارض میں گھات لگائے بیٹھے عالمی شکاری اور ہمارے بیرونی دشمن اس صورت حال سے فائدہ نہ اٹھاتے اور ہمارے اندر پھیلنے والی تعصبات کی اس آگ کو ہمارے گھر اور اپنے چولھے جلانے کے لیے استعمال نہ کرتے؟
۱۹۷۰ء کا الیکشن اور جماعت اسلامی
چنانچہ ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی کی ناکامی کے تنا ظر میں جب ۱۹۷۴ء میں نوجوانوں کے ایک اجتماع میں سید مودودی ؒسے پوچھا گیا کہ ’’ جماعت اسلامی ۳۰‘ ۴۰ سال کی مسلسل کوششوں کے باوجود اقتدار حاصل نہ کرسکی اور پاکستان پیپلز پارٹی چند سال کے اندر ہی اقتدار تک پہنچ گئی اور آج وہ ملک کے سیاہ وسفید کی مالک ہے۔ کیا یہ بات تحریک اسلامی کی غیر مقبولیت کا ثبوت نہیں؟‘ تو داعی تحریک اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑے اعتماد سے یہ جواب دیا:
(جاری ہے)