لاک ڈائون… ڈیڈ لاک کو توڑ دے گا

361

باب الاسلام
مولانا فضل الرحمن اکتوبر میں اسلام آباد کا ’’لاک ڈائون‘‘ کرنے والے ہیں۔ وہ اس کو ’’آزادی مارچ‘‘ کہہ رہے ہیں، ویسے تو مولانا صاحب کو ’’سری نگر‘‘ میں مودی سرکار کو ’’لاک ڈائون‘‘ کرنے کا کوئی پروگرام دینا چاہیے تھا جب کہ ’’آزادی مارچ‘‘ کی ضرورت بھی سب سے زیادہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو تھی کہ وہ 72 برس سے بھارت کی غلامی میں سسک رہے ہیں تاہم ممکن ہے کہ عمران حکومت کو اسلام آباد میں ’’لاک ڈائون‘‘ کرنے کے بعد مولانا صاحب سری نگر میں مودی سرکار کو بھی ’’لاک ڈائون‘‘ کی زد میں لے آئیں۔ ’’لاک ڈائون‘‘ دراصل F-16 جہازوں کی اُس جنگی صلاحیت کا نام ہے جس کو استعمال کرنے کے بعد ہدف کو نشانے پر لے لیا جاتا ہے اور پھر جب چاہے F-16 اُس کا نشانہ لے سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ’’دھرنا‘‘ بھارتی سیاست کی ایجاد ہے اور ’’لاک ڈائون‘‘ امریکی ٹیکنالوجی ہے۔ دھرنا پاکستانی سیاست میں داخل ہوچکا ہے جب کہ لاک ڈائون بھی اب داخل ہونے والا ہے۔ دونوں کا داخلہ اور مقصد ہدف کو گرانا اور نشانہ بنانا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ مولانا صاحب ’’لاک ڈائون‘‘ کا استعمال کہاں تک درست کرتے ہیں۔ حالات اور واقعات کا تجزیہ بتارہا ہے کہ مولانا صاحب کا ’’لاک ڈائون‘‘ کامیاب ہوجائے گا۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ سمیت دیگر دینی و سیاسی جماعتیں اگر مولانا صاحب کے ساتھ ٹرک پر سوار ہوگئیں تو مولانا کا قافلہ راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے فیض آباد پل پر پہنچتے ہی ’’لاک ڈائون‘‘ اپنے مقاصد حاصل کرے گا کیوں کہ 10، 15 لاکھ لوگوں کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے گولی چلانے کی ضرورت پیش آئے گی۔ پولیس سے یہ کام نہیں ہوگا اور اگر ’’111 برگیڈ‘‘ نے بھی گولی چلانے سے انکار کردیا تو پھر لاکھوں مظاہرین کا وزیراعظم سیکرٹریٹ کی طرف بڑھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ وزیراعظم عمران اپنی بنی گالا کی رہائش گاہ ہی سے استعفا دینے کا اعلان کردیں۔ بصورت دیگر وزیراعظم سیکرٹریٹ اور آفس کی کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ سکتے ہیں اور ’’لاک ڈائون‘‘ کرنے والے غیر معینہ مدت تک اسلام آباد میں ٹھیر سکتے ہیں تاوقتیکہ کہ ہدف کو زمین بوس کردیا جائے۔
گوکہ مولانا فضل الرحمن بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اداروں سے تصادم نہیں چاہتے تاہم وہ عمران خان کو بھی ’’این آر او‘‘ نہیں دیں گے۔ مولانا صاحب کی یہ سوچ مثبت اور جمہوری ہے لیکن اس کے ساتھ مولانا صاحب یہ بھی یقینا سمجھتے ہوں گے کہ اسلام آباد کا ’’لاک ڈائون‘‘ محض عمران حکومت کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہوگا بلکہ بھارت اور امریکا بھی اس ’’لاک ڈائون‘‘ کی خبر سے پریشان ہوں گے۔ کیوں کہ پاکستان کے موجودہ اقتدار اور سیاسی منظر کے تبدیل ہونے کے بعد ’’بھارت امریکا گٹھ جوڑ‘‘ کے بہت سے مفادات اور اہداف بھی زد میں آسکتے ہیں۔ ’’دینی قیادت‘‘ مضبوط ہوجائے گی۔ قادیانی، سی آئی اے اور ’’را‘‘ کے نیٹ ورک کو توڑنے کا موقع مل جائے گا۔ سری نگر سے کابل تک کی صورت حال کو بھی نئے تناظر میں دیکھنا پڑے گا جو یقینا واشنگٹن اور نئی دہلی کے لیے تکلیف دہ ہوگا۔ پاکستان کے داخلی امن کو استحکام ملے گا۔ مہنگائی کو کنٹرول کیا جاسکے گا، بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش ہوگی، آزاد خارجہ پالیسی اور خود انحصاری کی طرف توجہ بڑھ جائے گی، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی اعلیٰ سطح پر سنجیدہ کوششیں ہوں گی، پاکستان کے اسلامی اور نظریاتی تشخص کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے کی امید بھی بڑھ جائے گی۔
جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں ’’تحریک انصاف‘‘ کو جو اقتدار ملا وہ اقتدار ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا احسان تھا یا عوام کا اعتماد، ہم اس بحث میں اُلجھنا نہیں چاہتے بلکہ تحریک انصاف کی حکومت کے گزرے ہوئے ایک برس کا تجزیہ کرنا چاہیں گے اور یہ تجزیہ صاف بتا رہا ہے کہ جیسے پاکستان ٹھیر گیا ہو، کسی بھی شعبے میں ہم آگے بڑھتے یا ترقی کرتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔ مقبوضہ کشمیر جو پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ ہے اُس پر بغیر کسی جنگ کے بھارت نے قبضہ کرلیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے ہم میدانی جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے، جب کہ سفارتی جنگ ہار چکے ہیں ، عربوں کی دوستی کی حالت یہ ہے کہ وہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پر پاکستان کی میزبانی میں ’’OIC‘‘ کا سربراہ اجلاس بلانے کے لیے تیار نہیں۔ چین کی دوستی الفاظ کی حد تک تو ضرور موجود ہے تاہم پاک بھارت جنگ کی صورت میں کہاں تک کام آئے گی اس پر دو رائے نہیں۔ روس 65ء اور 71ء کی طرح آج بھی بھارت کا اسٹرٹیجک اتحادی ہے، امریکا دھوکے باز اور بھارت کا طرفدار ہے، برطانیہ کی شرارت ہی سے مسئلہ کشمیر ہنوز حل طلب ہے۔ اقوام متحدہ کو اپنی قرار دادوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے متوجہ کرنے میں ناکام رہے، افغان امن عمل بھی رُک چکا ہے، افغان جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ عالمی برادری بھی مودی اور اشرف غنی کے ساتھ جام صحت نوش کررہی ہے، عرب بھائیوں نے آنکھوں پر چشمے اور کانوں پر رومال کھینچ لیے ہیں، ایران کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات میں کوئی گرمجوشی نہیں۔ ’’آئی ایم ایف‘‘ سے قرضہ لے کر ہم سامراجی طاقتوں کے غلام بن چکے ہیں جو آگے چل کر ہمیں ’’بلیک لسٹ‘‘ کرسکتے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ پریشان ہے کیوں کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے ختم کیے جارہے ہیں، مہنگائی مزید دو سال تک جاری رکھنے کا اعلان کیا جارہا ہے۔ اربوں ڈالر کی بیرونی امداد اور قرضے سے عوام کو کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے واپس ’’آئی ایم ایف‘‘ کی تجوریاں بھری جارہی ہیں۔ قومی قیادت کو اعتماد میں لینے کی کوئی فکر نہیں، قومی اتحاد کو فروغ دینے کی طرف پیش قدمی نہیں۔ پاک بھارت کشیدگی اور مسئلہ کشمیر سمیت کئی دیگر حساس اور اہم معاملات پر اب تک کوئی ’’قومی کانفرنس‘‘ طلب نہ کی جاسکی۔ مفاہمت اور درگزر کی جگہ حکومت غصے اور انتقام میں نظر آتی ہے۔ منتخب ایوانوں کے وقار کو مجروح اور اختیارات کو نظر انداز کیا جارہا ہے جس سے جمہوری سسٹم کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ کرپشن کے خلاف مقدمات، گرفتاریاں اور سزائیں بالکل ٹھیک ہیں بلکہ عوام کی خواہش ہے کہ نیب کو کمزور کرنے کی کوشش نہ کی جائے، اُسے مزید مضبوط اور باختیار بنایا جائے، جب کہ اعلیٰ عدلیہ پر اعتماد ہونا چاہیے۔ مگر اس کے ساتھ ہی سیاسی ماحول کو سازگار بنانا بھی ضروری ہے تا کہ انتظامی اور عدالتی فیصلوں پر انتقام کا الزام نہ لگے، پاکستان کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں ممکن حد تک تعاون اور مفاہمت پائی جائے تاہم عمران خان صاحب کے مزاج اور حکومتی اقدامات اس بات کی نفی کررہے ہیں کہ آئندہ برسوں میں بھی ایسا کچھ ہو کہ حکومت اور اپوزیشن کسی ایک میز پر بیٹھ سکیں؟۔
مذکورہ صورتِ حال نے پورے ملک میں ’’ڈیڈ لاک‘‘ جیسی صورتِ حال پیدا کردی ہے۔ ترقی، امن، خوشحالی اور مفاہمت کے تمام راستے آہستہ آہستہ بند ہوتے جارہے ہیں، کوئی مسئلہ حل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا بلکہ ایک مسئلہ کئی دیگر مسائل کو جنم دے رہا ہے، خارجہ پالیسی ناکام اور دفاعی پالیسی غیر موثر ہوتی جارہی ہے، ہم تمام تر طاقت اور وسائل سے لیس ہونے کے باوجود اپاہج اور محتاج ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ان حالات اور واقعات کی موجودگی میں مولانا فضل الرحمن صاحب کا ’’لاک ڈائون‘‘ یقینا ملک کے اندر موجود ’’ڈیڈ لاک‘‘ کو توڑ دے گا جس کے بعد بجا طور پر یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ ملکی مفاد اور عوامی توقعات کے مطابق ’’قومی قیادت‘‘ کہیں بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ سامنے آسکتی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مولانا صاحب کا ’’آزادی مارچ‘‘ بروقت اور ’’لاک ڈائون‘‘ درست فیصلہ ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔ آمین ثم آمین