سندھ حکومت سفری سہولیات فراہم نہ کرسکی ،شہری کی ہائیکورٹ میں درخواست

140

کراچی(اسٹا ف رپورٹر)کراچی کے ایک رہا ئشی نے کراچی میں ٹرانسپورٹ کے معاملے پر سندھ ہائیکورٹ میں درخواست جمع کرادی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ 2016ء کے بعدکرایہ نامہ جاری نہیں ہوا،بسوں،کوچز اور ویگنوں میں من مانے کرائے وصول کیے جارہے ہیںجبکہ مسافر بھیڑبکریوں کی طرح سفرکرنے پر مجبور ہیں۔ٹکٹ کانظام رائج نہیں،طلبہ کارعایتی کرایہ کیوں ختم کیا گیا اور ٹرانسپورٹ کی قلت کب ختم ہوگی ؟ تفصیلات کے مطابق شہری کی جانب سے درخواست میں مؤ قف اختیار کیا گیا ہے کہ کراچی میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے حکومت سندھ اب تک شہریوں کو سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کرسکی ہے ۔ شہر میں جو بھی پبلک ٹرانسپورٹ چل رہی ہے یعنی بسوں ، منی بسوں اورکوچز مالکان و ٹرانسپورٹرز نے تمام کرائے ازخود مقرر کررکھے ہیں ۔ مسافروں کو ایک طرف بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے تو دوسری جانب بسوں ،منی بسوں اور کوچز میں حکومت کی جانب سے منظور شدہ نرخنامہ کو پس پشت ڈال کر من مانہ30سے 50اور 70روپے تک کرایہ وصول کرکے مسافروں کی جیبوں پر بھاری بوجھ بھی ڈالا گیا ہے، جس کی اصل وجہ حکومت سندھ کی جانب سے کرایہ نامہ منظر عام پر نہ لانا یا جاری نہ کرنا ہے اور حکومت سندھ کی ویب سائٹ پر بھی 2016کے بعد کوئی کرایہ نامہ کی فہرست موجودہی نہیں ہے ۔جبکہ حکومت سندھ کی ویب سائٹ پر موجود پرمٹ کی تفصیلات کچھ یوں ہے کہ PTAنے کراچی میں 2046،اور DRTAنے منی بس کے 5929،PTAنے بس کے 859،اور DRTAنے 5297اسی طرح DRTAنے کوچز کے 3367،UTSبس کے 230،KPTSبس کے 262پرمٹ جاری کیے ہیں جو کہ فہرست میں موجود ہیں ۔ درخواست میں یہ بھی مو قف اختیار کیا گیا ہے کہ کراچی میں چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ میں نہ تو حکومتی کرایہ نامہ آویزاں کیا جاتا ہے اور نہ مسافروں کو ٹکٹ دینے کا سسٹم رائج ہے ۔ شہر میں چلنے والی بسیں ،منی بسیں ،کوچز کی اکثریت سی این جی پر منتقل ہوچکی ہے جبکہ حکومتی کرایہ نامہ سی این جی پر نہیں بلکہ ڈیزل کی قیمتوں پر ہی مقرر کیا جاتا رہا ہے ۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں خواتین کے ساتھ کنڈیکٹروں کی بدتمیزی اور خواتین کمپارٹمنٹ میں مردوں کو بٹھانے کے واقعات بھی عام ہیں۔ شہری کی جانب سے سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ حکومت سندھ ، وزیر ٹرانسپورٹ سندھ ،سیکرٹری ٹرانسپورٹ سندھ ،سیکرٹری آر ٹی اے ،ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کراچی سے جواب طلب کیا جائے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سی این جی پر منتقلی کی اجازت کس نے دی؟کراچی کے عوام کو سفری سہولیات کب میسر آئیں گی ؟پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت کب ختم ہوگی ؟درخواست میںیہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ حکومت سندھ سے اس معاملے پر بھی جواب طلب کیا جائے کہ اس وقت کراچی شہر کی آبادی کتنی ہے؟ اورکیا اسی تناسب سے شہرمیں فٹنس سرٹیفیکیٹ کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ چل رہی ہے؟ حکومتی ویب سائٹ کے مطابق جتنے پرمٹ جاری کیے گئے ہیں کیااتنی گاڑیاں شہر کراچی میں چل رہی ہیں؟ حکومت سندھ نے 2016کے بعد کوئی کرایہ نامہ کیوں جاری نہیں کیا؟ بسوں میں طلبہ کے لیے آدھے کرایہ کی رعایت کا سلسلہ ختم ہونے کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟درخواست میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ جب تک حکومت سندھ اس اہم مسئلے کو حل نہیں کرتی عوامی مفاد میں باقاعدہ سماعت کے سلسلے کو جاری رکھ کرشہریوں کو اس اذیت سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔