انتخابات‘ سقوط ڈھاکا اور بھٹو کا دورِ حکومت(باب دواز دہم )

269

۱۴؍ مارچ ۱۹۷۱ء کو اسلامی جمعیت طلبہ کی صوبائی شوریٰ نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی‘ جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ: قومی اسمبلی کا اجلاس فوری طور پر طلب کیا جائے اور منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کیا جائے (روزنامہ اتفاق ڈھاکا ۱۵؍ مارچ ۱۹۷۱ء) جنوری۱۹۷۱ء سے ملک کی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی پیپلز پارٹی اور برسر اقتدار مغربی حکمران کے درمیاں اقتدار کی کش مکش عروج پر پہنچ چکی تھی۔ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کی پر تشدد سرگرمیوں کی وجہ سے مشرقی صوبہ خانہ جنگی کا شکار ہوچکا تھا۔ یکم؍مارچ ۱۹۷۱ء سے غیر بنگالیوں اور محب وطن بنگالیوں کا قتل عام شروع ہوگیا تھا۔ اس نازک موڑ پر اسلامی جمعیت طلبہ کی صوبائی شوریٰ کا اجلاس ۱۰ تا ۱۴؍ مارچ تک جاری رہا اور ملک بچانے کے لیے شوریٰ نے ملک توڑنے والوں کا ساتھ دینے یا خاموش تماشائی بنے رہنے کے بجائے محب وطن پاکستانیوں کے جان ومال کی حفاظت اور ملکی سرزمین کو اسلام کے نام سے جڑا رکھنے کے لیے میدان عمل میں اترنے کا فیصلہ کیا‘ تاکہ انگریزوں اور ہندوؤں کے تسلط سے آزادکردہ خطہ پاکستان کو متحد رکھا جاسکے۔ اور قیام پاکستان کے لیے ہمارے آباؤاجداد نے صرف ۲۴ سال پہلے جو قربانیاں دی تھیں وہ رائیگاں نہ جائیں۔ اس فیصلے کے دوماہ بعد تک البدر تنظیم وجود میں نہیں آئی تھی۔ لیکن جب مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر بھارت نے حملہ کردیا اور ان کے ہمراہ ان کی تربیت یافتہ مکتی باہنی نے ہندوستانی فوج کے ہمراہ محب وطن بنگالیوں اور پاکستانیوں اور پاکستانی فوج کے خلاف یلغار کردی اور پاکستانی فوج کی بنگالی رجمنٹ ایسٹ بنگال رائفلز نے بغاوت کردی توملکی تحفظ اور نظریہ پاکستان کی حفاظت کی خاطر البدر کا قیام عمل میں لایا گیا۔
۳۱ بلوچ رجمنٹ کے میجر ریاض حسین ملک البدر کی تاسیس کا احوال یوں کرتے ہیں: ’’دشمن تعداد میں بہت زیادہ تھا۔ پورے ملک میں تخریبی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ ہمارے جوان بنگلا زبان اور بنگال کے طبعی وجغرافیائی ماحول سے نابلد تھے۔ ہمارے ذرائع معلومات نہ ہونے کے برابر تھے اور ذرائع مواصلات محدود اور غیر مربوط تھے۔ یہ بہت مشکل صورت حال تھی اور وطن کا دفاع کا فریضہ انجام دینا انتہائی دشوار ہوگیا تھا۔ ہمیں اس وقت ایک مخلص قابل اعتماد اور محب وطن بنگالی گروہ کی ضرورت تھی۔ جو پاکستان کی سا لمیت کے لیے ہمارے شانہ بشانہ کام کرسکتا ہو۔ ۱۶ ؍مئی ۱۹۷۱ء کو شیرپور (ضلع میمن سنگھ) کے مقام پر اپنی مختصر فوجی تربیت سے آغاز کیا گیا اور ستمبر ۱۹۷۱ء تک اسے مشرقی پاکستان میں منظم کیا گیا۔ یہ رضاکار فرسودہ اور انتہائی کم ہتھیاروں سے لڑرہے تھے اور جدید اسلحہ سے لیس بھی نہ تھے۔ جبکہ دشمن کے تمام یونٹ حتیٰ کہ پولیس اور فوج کے پاس جدید ترین ہتھیار تھے‘‘۔
محب اسلام‘ محب وطن پاکستانیوں کا قتل عام
عینی شاہدین کے مطابق یکم ؍مارچ سے ۲۵ ؍مارچ تک عوامی لیگ کے بنگالی قوم پرستوں‘ ہندوؤں اور بھاشانی کے کمیونسٹ مسلح جتھوں نے چن چن کر غیر مسلح‘ معصوم‘ پرامن اردو پنجابی اور پشتو بولنے والوں اور متحدہ پاکستان کے حامی بنگالیوں کا بے دردی سے قتل عام کیا۔ صرف ۲۵ دنوں میں پورے صوبے میں ایک لاکھ سے زیادہ مظلوم اور بے کس پاکستانیوں کو قتل کیا گیا‘ اس وقت البدر قائم بھی نہیں ہوئی تھی۔ ۲۵؍مارچ کی رات کو آرمی آپریشن شروع ہوا اور وسط اپریل تک لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کی کمان میں مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے سرگرم جنگجووں کے خلاف کارروائی کی گئی‘ جنہوں نے گزشتہ ایک ماہ سے ہزار ہا بے گناہ اور نہتے پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہوئے تھے‘ جب البدر کا قیام عمل میں لایا گیا تو انہوں نے صرف پاکستان کے دفاع اور اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھائے‘ کسی نہتے اور بے گناہ کے خون سے اپنے ہاتھ آلودہ نہیں کیے۔
۱۶؍ دسمبر کو پاک فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد بھارتی فوج کی نگرانی میں مکتی باہنی نے ہندوؤں اور کمیونسٹوں سے مل کر البدر الشمس جماعت اسلامی کے کارکنوں‘ پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم لیگ کے بنگالی محب وطن اور غیر بنگالیوں کو بے دردی سے شہید کیا۔ اس لیے البدر الشمس پر قتل غارت گری کے الزاما ت لگانا تاریخ کو مسنح کرنے کے مترادف ہے اور ہندوستان کے ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی پریس کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔
(جاری ہے)