جنرل رانی کا دوسرا جنم؟

1066

یہ کیسی تکلیف دہ صورت حال ہے کہ مذہب کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاکستان میں مذہب سے بے زاری کا دور دورہ ہے، ملک و قوم سے محبت کا دم بھرنے والے سگار کا دام لگانے میں مصروف ہیں، ہر بااختیار فرد کسی شرمناک واقعے میں ملوث دکھائی دیتا ہے، انگریزوں کی غلامی سے آزادی پا کر خود مختار زندگی گزارنا خواب بن چکا ہے، یوں لگتا ہے ہمیں برطانیہ ایکسپریس سے اُتار کر امریکا ایکسپریس میں بٹھا دیا گیا ہے۔ پاکستان میں ہر سال سیلاب آتے ہیں مگر اس کا سدباب کرنے کے بارے میں کسی حکومت نے نہیں سوچا۔ حسب سابق امسال بھی انڈیا نے سیلاب کا رُخ پاکستان کی جانب موڑ دیا۔ دیہی علاقے زیر آب آگئے۔ حیرت ہے ان سیلابوں کو ’’سونامی‘‘ بھی نہ روک سکا۔ قیام پاکستان سے قبل ریاست بہاولپور کے لگ بھگ چھتیس دیہی علاقوں کو انڈیا سے آنے والے پانی سے سیراب کیا جاتا تھا، مگر تقسیم کے بعد پانی بھی بھارتی ہوگیا اور پاکستان کی سرسبز و شاداب زمینیں بنجر ہوگئیں، البتہ 1965ء تک عوام کے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر بعض علاقوں کو پانی ملتا رہا۔ نوے کی دہائی میں ہم نے روزنامہ حریت کراچی میں لکھا تھا کہ ہندوستان سے خوش گوار تعلقات کے لیے آبیانے کا معاہدہ کرکے ان دیہی علاقوں کے لیے پانی لیا جائے جنہیں تقسیم سے قبل پانی ملا کرتا تھا، کیوں کہ راج باہیں یعنی چھوٹی نہریں ابھی تک موجود ہیں۔ بہت عرصے کے بعد میاں ریاض پیرزادہ وفاقی وزیر بنے تو انہوں نے ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ دریائے سندھ کا پانی رودکوہیوں میں تباہی مچاتا ہوا سندھ سے گزر کر سمندر میں گر جاتا ہے، اس پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے وہاڑی کے راستے سے دریائے ستلج میں ڈال دیا جائے تو نہ صرف دریائی علاقے خشک ہونے سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ چولستان کا ایک وسیع علاقہ بھی سیراب ہوسکتا ہے۔ دریائے ستلج کے خشک ہونے کی وجہ سے ضلع بہاولپور کے مختلف علاقوں میں سنکیا کی مقدار بہت بڑھ گئی ہے جو گردے اور دیگر بیماریوں کا سبب بن رہی ہے۔ ان کے ارشاد گرامی کے مطابق بجلی کے بحران کے لیے بھی خاطر خواہ اقدامات کیے جارہے ہیں، مگر ڈیم راتوں رات نہیں بن سکتے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ ڈیم راتوں رات نہیں بن سکتے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیز پر مسلط ہونے والا ہر شخص سیاست کو تجارت سمجھتا ہے اب تو اسے انتقام کا وسیلہ بھی بنالیا گیا ہے جو ملک و قوم کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔ سیاست دان برسراقتدار آکر الیکشن میں کی گئی سرمایہ کاری کو سود سمیت وصول کرنا ہی اپنی ذمے داری سمجھتا ہے۔ انڈیا ہر سال سیلاب کا رُخ پاکستان کی طرف موڑ دیتا ہے، ڈیم راتوں رات نہیں بنتے مگر ایک سال میں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ ایک مورخ نے سندھ کو پاکستان کا باپ ثابت کرنے کے لیے کئی صفحات پر مشتمل دلائل کے انبار لگادیے ہیں مگر وہ بھی یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ سندھ پاکستان کو اپنا بیٹا ماننے سے کیوں منکر ہے اور اس انحراف و انکار کی کیا وجہ ہے؟۔ وہ پاکستان کو سرسبز و شاداب اور خوش حال دیکھنے سے کیوں گریزاں ہے؟۔ عدلیہ کے بڑے چودھری صاحب نے ڈیم بنانے کے لیے ساری دنیا سے چندا مانگا مگر اتنا چندا جمع نہ ہوسکا کہ ڈیم بن سکتا۔ حالاں کہ سکھ کمیونٹی نے پیش کش کی تھی کہ ڈیم کا نام بابا گرونانک رکھ دیا جائے تو وہ سارا خرچ ادا کریں گے مگر کسی نے اس پیش کش پر توجہ نہ دی، شاید ان کی غیرت جاگ پڑی۔ ڈیم کے نام پر عدلیہ اور وزیرعظم عمران خان نے جو چندا لیا ہے اس سے سیلابی پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنادیا جائے مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب حکمران طبقہ حقیقی معنوں میں حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو۔ ڈیم کے لیے جو چندا جمع کیا گیا تھا وہ کہاں ہے؟ کہیں وہ بھی کسی چندا بی بی کو تو نہیں دے دیا گیا ہے۔ جنرل رانی نے دوبارہ تو جنم نہیں لے لیا ہے۔