سیدناحسن بن علیؓ

440

مولانا محمد الیاس گھمن
اِنسانیت کی رہنمائی کے لیے محسنِ انسانیتؐ نے جو افراد تیار فرمائے ان میں ایک نام گلستانِ نبوت کے گلِ سرسبز سیدنا حسن بن علیؓ کا ہے۔
ولادت:
تاریخ الخمیس میں ہے کہ آپؓ کی ولادت 3ہجری رمضان المبارک کے وسط میں مدینہ طیبہ میں ہوئی۔
نام ونسب:
حسن بن علی بن ابی طالب۔ آپ کا نام حسن نبی اقدسؐ کا پسند فرمودہ ہے۔ آپ جناب نبی اقدسؐ کی لاڈلی صاحبزادی خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا کے بڑے فرزند ہیں۔ کنیت ابو محمد جبکہ آپ کے القاب سبط رسول، ریحانۃ النبی اور شبیہ بالرسول ہیں۔
ترمذی میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ حسنؓ کا جسم مبارک اوپر والے نصف حصے میں رسول اللہؐ کے جسم مبارک سے ملتا جلتا تھا جبکہ حسینؓ نیچے والے نصف حصے کی ساخت پر داخت اللہ کے نبیؐ کے جسم اقدس سے مشابہہ تھی۔
اس مشابہتِ رسول کا اثر فقط جسم کے ظاہر ی اعضا تک ہی محدود نہ تھا بلکہ روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھے۔ آپ کی چال چلن، گفتار رفتار، جلو ت خلوت، قول وعمل، ایثار وہمدردی، عادات واطوار، خوش خلقی، حسن سلوک، مروت رواداری، شجاعت وعزیمت، دور اندیشی وفر است، حکمت ودانائی، علم وتقویٰ، زہد وورع ، خشیت وللٰہیت، محبت ومعرفتِ خداوندی الغرض نبیؐ کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے۔
عبادت:
امام ابن عساکر و دیگر محقق مورخین نے لکھا ہے کہ سیدنا حسنؓ فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد طلوع آفتاب تک اپنی جگہ بیٹھ کر ذکر اللہ میں مشغول رہتے پھر آپ کے پاس قوم کے لوگ آکر مجلس میں شرکت کرتے اور آپؓ ان کو وعظ و نصیحت اور اسلامی احکامات کا درس دیتے یہ مجلس چاشت کے وقت تک لگی رہتی۔ چاشت کے نوافل ادا کرنے کے بعد آپؓ امہات المومنین کے ہاں تشریف لے جاتے اور ان کی خدمت میں سلام عرض کرتے۔ کبھی کبھار امہات المومنین کی طرف سے آپ کو ہدیہ ملتا جسے آپ بخوشی قبول فرماتے۔ اس کے بعد آپ اپنے گھر تشریف لے جاتے۔ اور شام کو بھی آپ کا یہی معمول ہوتا۔
امام ذہبیؒ نے سیر اعلام النبلا میں ذکر کیا ہے کہ آپ جب سونے کے لیے بستر پر تشریف لاتے تو سورہ الکہف کی تلاوت فرماتے، امام ابن ابی شیبہ نے ام اسحاق بنت طلحہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ سیدنا حسن رات کے ابتدائی حصے میں قیام اللیل میں مشغول ہوجاتے اور آخر شب میں سیدنا حسین قیام اللیل تہجد ادا کرتے تھے۔
مروت و سخاوت:
امام ابن عساکر نے اپنی مختصر تاریخ میں لکھا ہے کہ ابو ہارون نامی ایک شخص اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے حج کے لیے سفر کیا مدینہ طیبہ پہنچے تو ارادہ کیا کہ حسنؓ کی خدمت میں بھی حاضری دیں چنانچہ ہم حاضر ہوئے اور اپنے سفر کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ مجلس سے فارغ ہونے کے بعد ہم لوگ جب واپس ہوئے تو سیدنا حسنؓ نے ایک شخص کی وساطت سے ہم سب کے لیے چار چار سو درہم بھیجے۔ ہم نے قاصد سے کہا کہ ہمیں ان کی حاجت نہیں۔ قاصد نے کہا کہ حسنؓ کے بابرکت مال کو واپس نہ کرو۔ اس کے بعد ہم خود سیدنا حسن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہمیں ان کی چنداں ضرورت نہیں ہم مالدار لوگ ہیں۔ آپ نے فرمایا: میرے نیک عمل کو واپس نہ کرو اگر میں اس سے زیادہ دیتا تو وہ بھی تمہارے لیے کم تھا میں نے تمہیں یہ زادراہ کے طور پر دیا ہے تاکہ تم سفر میں خرچ کرو۔
حلم و بردباری:
شیخ سید علی بن عثمان الہجویریؒ نے کشف المحجوب میں ایک واقعہ نقل فرمایا کہ ایک دیہاتی شخص جناب سیدنا حسنؓ کے پاس آیا اور آپ کو گالیاں دینے لگا۔ آپ اس کی اس ناشائستگی کو برداشت فرماتے ہوئے اس سے کہا کہ شاید تم کو بھوک وپیاس نے ستایا ہے اور اپنے خادم سے کہا کہ دراہم کی تھیلی لاؤ۔ خادم نے لا کر وہ تھیلی دیہاتی کے حوالے کی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر اس سے زیادہ ہمارے گھر میں اس وقت مال ہوتا تو وہ میں آپ کو دے دیتا۔ دیہاتی نے آپ کے اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہو کر کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ رسول اللہؐ کی اولاد ہیں، میں آپ کے حلم و بردباری کا امتحان لینے آیا تھا۔
معاشی حالات:
مورخین نے لکھا ہے کہ آپؓ کے معاشی حالات بہت بہتر تھے۔ خلفاء راشدین بشمول آپ کے والد گرامی سیدنا علی المرتضیٰ آپ کے لیے مقرر کردہ وظائف دیتے تھے۔ امام ابن عساکر نے تاریخ بلدہ دمشق میں لکھا ہے کہ جناب سیدنا امیر معاویہؓ بھی سیدنا حسنؓ کی خدمت میں سالانہ چار لاکھ دراہم پیش فرماتے۔
ایک اہم خطبہ:
سیدنا حسنؓ اعلیٰ پائے کے خطیب بھی تھے چنانچہ امام ذہبی نے سیر اعلام النبلا میں حرمازی سے سیدنا حسن بن علیؓ کا کوفہ میں دیا گیا خطبہ نقل کیا۔ جس کا مفہوم یہ ہے:
حلم و حوصلہ مندی انسان کو زینت بخشتی ہے۔
وقار، اخلاق حسنہ میں سے ہے۔
جلد بازی سے خفت اٹھانا پڑتی ہے۔
جہالت اور عدم برداشت (اخلاقی) کمزوری ہے۔
کمینوں کی صحبت ایک عیب ہے اور فاسقوں سے مل بیٹھنا باعث تہمت ہے۔
ایک خواب اور سانحہ ارتحال:
امام ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار سیدنا حسنؓ نے خواب دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر قل ھواللہ احد لکھا ہوا۔ جس پر آپ بہت خوش ہوئے بعد میں اس خواب کا تذکرہ مشہور تابعی سعید بن مسیب کے سامنے ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے خود یہ خواب دیکھا ہے تو سیدنا حسن کی زندگی قلیل رہ گئی ہے۔ چنانچہ چند دنوں بعد بقول امام ذہبی آپ کی ایک زوجہ جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی نے آپ کو زہر دیا جس کی وجہ سے آپ چالیس دن برابر اس زہر کے اثر سے بیمار رہے اور بالآخر 49 ہجری کواس دنیا سے کوچ کر گئے۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ امیر مدینہ سعید بن العاص الاموی نے پڑھایا۔ امام ابن حجر مکی نے الصواعق المحرقہ میں لکھا ہے کہ آپؓ کو آپ کی دادی محترمہ جناب سیدہ فاطمہ بنت اسد کے پاس جنت البقیع میں دفن کردیا گیا۔
جنازہ میں خلق خدا کی کثرت:
امام ابن عساکر ثعلبہ بن ابی مالک کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ سیدنا حسنؓ کے جنازے میں لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ اگر کوئی سوئی بھی پھینکی جاتی تو وہ زمین کے بجائے کسی انسان کے سر پر گرتی۔