طالبان وفد کا دورہ پاکستان ،زلمے خلیل زاد سے ملاقات متوقع

156

اسلام آباد(خبرایجنسیاں+مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کی دعوت پر افغان طالبان کا اعلیٰ سطح کا وفداسلام آباد پہنچ گیا ۔امریکا کی جانب سے مذاکرات کی منسوخی کے بعد طالبان مسلسل علاقائی طاقتوں اور افغانستان کے پڑوسی ممالک کی قیادت سے رابطے کررہے ہیں اور اس سلسلے کا یہ ان کا چوتھا دورہ ہوگا، اس سے قبل حالیہ چند روز کے دوران طالبان رہنماؤں نے روس، چین اور ایران کا بھی دورہ کیا ہے۔طالبان کے دوحا آفس کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق طالبان کو اس دورے کے لیے سرکاری طور پر مدعو کیا گیا ہے، 12رکنی وفد کی سربراہی طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر کررہے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ وفد میں مذاکراتی ٹیم کے سینئر ارکان شامل ہیں اور یہ وفد 6اکتوبر تک پاکستان میں قیام کرے گا۔ان کے بقول پاکستان آمد کا کوئی ایک ایجنڈا نہیں، اس دورے میںامن مذاکرات، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سمیت افغان مہاجرین کے مسائل اور دوطرفہ تعلقات پر بات چیت ہوگی۔ سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ جو معاہدہ ہوچکا ہے اس پر قائم ہیں اور چاہیں گے کہ امریکا بھی مذاکرات کی جانب لوٹ آئے۔ان کے بقول افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے، امریکاپہلے بھی طاقت کے ذریعے کئی بار کوشش کرچکا ہے، اس لیے ایک سال میں مذاکرات کے 9 ادوار ہوئے ہیں جس میں دونوں فریقوں نے ایک معاہدے پر اتفاق کیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی طالبان وفد کی پاکستان آمد کی تصدیق کی ہے۔دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے پاکستان کے دورے کا مقصد امریکا اور طالبان کے درمیان اب تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینا ہے،طالبان وفد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کرے گا۔طالبان مذاکرات کاروں کا یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب افغانستان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد پہلے ہی پاکستانی حکام سے ملاقات کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں۔اگر یہ ملاقات ہوتی ہے تو یہ امریکی نمائندے کی پاکستانی سرزمین پر طالبان کے وفد سے پہلی ملاقات ہوگی۔پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ زلمے خلیل زاد کے دورے کا مقصد امریکا اور پاکستان کے درمیان نیویارک میں ہونے والی بات چیت کو مزید آگے بڑھانا ہے۔ادھر سہیل شاہین کا وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اتفاق سے اسلام آباد میں خلیل زاد بھی موجود ہیں اور اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طالبان کے وفد کی اْن سے بھی ملاقات ہو۔اگرچہ اس دورے سے پہلے طالبان کا کہنا تھا کہ وہ دورہ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے لیکن ترجمان سہیل شاہین کے مطابق یہ وفد اس دورے میں صرف پاکستانی دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اب تک دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقات طے ہے، باقی سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر وہیں پر ہوں گے اور اْن کے پاس اختیار ہے کہ کس سے ملیں۔دوسری جانب افغان صدارتی محل کے ترجمان صادق صدیقی نے اپنے بیان میں زلمے خلیل زاد یا افغان طالبان کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ امن مذاکرات کے نتائج اس وقت تک برآمد نہیں ہوں گے جب تک اس کی سربراہی افغان حکومت نہ کرے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو ’مردہ‘ قرار دیے جانے کے بعد سے پاکستانی حکومت فریقین کے مابین امن مذاکرات کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے رواں برس جولائی میں اپنے امریکا کے دورے میں کہا تھا کہ وہ وطن واپسی پر طالبان رہنماؤں سے ملاقات کریں گے اور انہیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے کہیں گے۔یاد رہے کہ طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر پاکستان میں 8سال قید کاٹنے اور پھر رہائی کے بعد پہلی بار پاکستان کا دورہ کررہے ہیں۔افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کو 2010ء میں پاکستان کے شہر کراچی میں ایک آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں 8برس بعد اکتوبر 2018 ء میں رہا کر دیا گیا تھا۔بعض ذرائع کے مطابق پاکستان نے ملا برادر کو امریکی درخواست پر رہا کیا تھا تاکہ وہ مذاکرات میں کوئی کردار ادا کر سکیں۔ملا برادر کی رہائی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں طورخم میں منعقدہ ایک تقریب میں کہا تھا کہ ہم نے طالبان کو قطر پہنچایا اور ان سے کہا گیا کہ وہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کریں۔51 سالہ ملا عبدالغنی برادر طالبان کے بانی ملا عمر کے قریبی ساتھی اور اْن کے سیکنڈ ان کمانڈ تھے۔الجزیرہ کی صحافی کارلوٹا بیلیس کی ایک مختصر دستاویزی فلم میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ ملا برادر اور کئی طالبان رہنما 2010ء میں ہی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار تھے تاہم امریکا اور پاکستان مذاکرات کے حق میں نہیں تھے اور انہوں نے ملا برادر کو گرفتار کر لیا تھا۔ سابق افغان صدر کے مطابق انہوں نے اْس وقت بھی ملا برادر کی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا تھا۔