(انتخابات‘ سقوط ڈھاکا اور بھٹو کا دورِ حکومت(باب دواز دہم

382

 جماعت اسلامی اور فوجی آپریشن
اپریل ۱۹۷۱ء میں امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان پروفیسر غلام اعظم نے جنرل ٹکا خان سے ملاقات کی اور بھارتی فوج کی پشت پناہی سے تخریب کاری کرنے والے کمیونسٹوں اور قوم پرست باغیوں کے خلاف اقدام کی حمایت کا اعلان کیا۔ قوم پرستوں اور مکتی باہنی کے غنڈوں نے غیر بنگالی آبادی کا قتل عام شروع کردیا۔ جماعت اسلامی نے ایک طرف تو ملکی سا لمیت کے تحفظ کی خاطر فوج سے تعاون کیا اور دوسری طرف اس نے ایک وفد یورپ اور دوسرا وفد عرب ملکوں میں بھیجا‘ تاکہ وہاں مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی اور اس کی حمایت پر جماعت کے موقف کی حمایت حاصل کی جائے۔
پاک فوج نے مکتی باہنی اور بھارتی مداخلت کاروں کی چھاپا مار جنگ کے خلاف اور اسلام پسند بنگالیوں اور غیر بنگالی آبادی کو قتل عام سے بچانے کے لیے رضاکار تنظیمیں ’البدر‘ اور ’الشمس‘ قائم کیں‘ جو اسلامی جمعیت طلبہ، اسلامی چھاترو شنگھو اور جماعت اسلامی کے کارکنوں پر مشتمل تھیں۔ مئی ۱۹۷۱ء میں قیمّ جماعت اور قائم مقام امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا‘ ان کے اس دورے میں ڈاکٹر نذیر احمد شہید اور دوسرے اکابرین بھی ان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے وہاں کئی ہفتے قیام کیا اور مشرقی پاکستان کے تقریباً تمام اضلاع کا دورہ کیا اور جگہ جگہ عوام سے خطاب کیا۔ مولانا عبدالرحیم‘ پروفیسر غلام اعظم اور خرم مراد بھی جو مشرقی پاکستان ہی میں مقیم تھے‘ میاں طفیل محمد کے ہم رکاب رہے۔ پورے مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کی کیفیت تھی اور ’البدر‘ اور’ الشمس‘ بھارتی دراندازوں کے خلاف صف آرا ہوگئی‘ جنہوں نے بے مثال قربانیاں اور خون دے کر پاکستان کی سا لمیت بچانے کی سر توڑ جدوجہد کی۔
قوم پرستی کی اس جنونی دوڑ میں جماعت اسلامی مشرقی پاکستان نے بنگلا قوم پرستی کے مقابلے میں جس خالص اسلامی کردار کا مظاہرہ کیا وہ مشعل راہ ہے۔ اس بات کا زندہ جاوید ثبوت ہے کہ اسلام رنگ و نسل اور زبان ہر چیز سے بالاتر ہے اور صرف اسلام ہی ایک ایسا دین اور نظریہ ہے جو عملاً ہر قسم کے امتیازات اور تفریقات کو مٹا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی نے پورے مشرقی پاکستان میں امن کمیٹیاں قائم کیں۔ اس لیے ان کے دفاتر اور ارکان‘ باغیوں کا خاص ہدف تھے۔ ان پر جگہ جگہ حملے ہوئے بم پھینکے گئے۔ امن کمیٹیوں کے بے شمار ارکان شہید اور زخمی ہوئے جن میں جماعت کے بھی کئی کارکن زخمی ہوئے۔ ان میں مولانا اے کے ایم یوسف بھی شامل تھے۔
عوامی لیگ کے ان ارکان اسمبلی کی نشستیں خالی قرار دی گئیں جو بھارت چلے گئے تھے۔ حالات کو سدھارنے اور عام آبادی میں اعتماد بحال کرنے کے لیے ضمنی انتخابات کرائے گئے اور ڈاکٹر مالک کو صوبے کا گورنر مقرر کرکے صوبائی حکومت بنانے کی ہدایت کی گئی۔ ڈاکٹر مالک کی صوبائی کابینہ میں جماعت اسلامی کو دو وزارتیں دی گئیں۔ عباس علی خاں کو وزارت تعلیم اور مولانا کے ایم یوسف کو وزارت مال دی گئی۔
بھارت کا مشرقی پاکستان پر حملہ۔ سقوط ڈھاکا
بھارت نے جب یہ دیکھا کہ فوج نے رضاکاروں اور محب وطن و اسلام عناصر کے تعاون سے مسلح بغاوت پر قابو پالیا اور باغیوں کی تربیت‘ روپے اور اسلحہ سے باغیوں کی اعانت اور اپنے مداخلت کاروں کے ذریعے وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا تو اس نے ۲۲؍ نومبر ۱۹۷۱ء کو اپنی پوری فوجی قوت سے مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر حملہ کردیا۔ پاکستانی فوج کو فضائی کمک کے راستے پہلے ہی مسدود ہوچکے تھے‘ کیونکہ بھارت نے گنگا نامی جہاز کے اغوا کے ذریعے پاکستان کے دونوں بازوئوں کے مابین فضائی سروس پر پہلے پابندی لگادی تھی۔ سمندری راستے سے جلد کمک وصول نہیں ہوسکتی تھی۔ محدود فوج اندرون ملک بھی خانہ جنگی سے نمٹ رہی تھی۔ ۳؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو بھارت نے مغربی پاکستان پر بھی حملہ کردیا اور چند روز میں ضلع تھرپارکر اور سیالکوٹ کے ساڑھے پانچ ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کرلیا۔ مشرقی پاکستان میں تین ہفتے تک دفاعی جنگ لڑنے کے بعد پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دے دیا گیا۔ اس وقت مشرقی پاکستان کی کمان لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی کے ہاتھ میں تھی۔ اس طرح ۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو سقوط مشرقی پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔
(جاری ہے)