کیا اچھی تقاریر مسائل کا حل ہیں؟

254

وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریر پر جہاں تعریف کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں، وہیں کچھ حقیقت پسند حضرات یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ بلا شبہ تقریر اچھی تھی یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا اس تقریر کے بعد وطن عزیز کو درپیش لاحق خطرات و مسائل اور مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا کہ نہیں؟ اور با اثر سربراہان مملکت اس تقریر کے بعد پاکستانی موقف کو تسلیم کرتے ہوئے، بھارت پر دبائو ڈالیں گے کہ بھارت، پاکستان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے، مسئلہ کشمیر حل کرے؟
جہاں تک تقاریر کی بات ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں ہر طبقے میں ایک سے ایک بڑا خطیب گزرا اور موجود ہے۔ لیکن وطن عزیز ترقی ٔ معکوس کی جانب برق رفتاری سے گامزن ہے۔ اگر تقاریر ہی تمام مسائل کا حل ہوتیں تو قائد اعظم کی تقاریر طالب علموں کو رٹوا کر ملکی مسائل کا حل نکالا جا چکا ہوتا۔ مسجد و منبر سے کی جانے والی تقاریر معاشرے میں مثبت تبدیلی کا حل ہوتیں، تو گلی گلی بچے بچیاں ظلم و زیادتی کا شکار نہ ہوتے۔ اور معاشرہ ملاوٹ، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، رشوت خوری، دہشت گردی اور بد عنوانی کی تصویر نہ ہوتا۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں قائد اعظم نے بارہا فوجی افسران اور نوکر شاہی سے منسلک افسران سے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ’’آپ قوم کے خادم ہیں۔ انگریز دور کی عطا کردہ آقائی ذہنیت کو ترک کر دیں‘‘۔ لیکن بدقسمتی سے قائد اعظم کی تقاریر کا سول و فوجی بیورو کریسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اور قیام پاکستان کے چند برس بعد جیسے ہی موقع ملا، سول و ملٹری بیورو کریسی سیاست دانوں کی باہمی چپقلش اور ناتجربہ کاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، اقتدار پر قابض ہوگئی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن وطن عزیز سیاسی، داخلی و معاشی استحکام کا متلاشی ہے۔
ڈکٹیٹروں اور نوکر شاہی نے وطن عزیز کا نظم و نسق سنبھالنا تھا تو انگریزوں سے جان چھڑانے کی کیا ضرورت تھی؟ قیام پاکستان کا مقصد ایک ایسی فلاحی مملکت کا قیام تھا۔ جہاں تمام شہریوں کو ہر شعبہ زندگی میں یکساں حقوق حاصل ہوں۔ جہاں ہر شہری اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے میں بلا کسی جبر آزاد ہو۔ اظہار رائے کی آزادی ہو۔ پے در پے چار مارشل لائوں نے جہاں ملک کے حصے بخرے کیے۔ وہیں مملکت کے شہری بھی ایک قوم نہ بن سکے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں پائی جانے والی مثبت روایات و اقدار تیزی سے رو بہ زوال ہیں۔ وطن عزیز کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان ایک فلاحی مملکت بننے کے بجائے، ایک دفاعی مملکت کی تصویر نظر آتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے با وجود دنیا پاکستان کو وہ اہمیت نہیں دیتی، جو کسی ایٹمی ملک کو ملنی چاہیے۔ وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم تعلیم، صحت اور معیشت کے میدان میں دیگر ایٹمی قوتوں سے کوسوں پیچھے ہیں۔ کسی بھی ملکی سربراہ کی اقوام عالم اور سربراہان مملکت کی نظر میں اس وقت عزت ہوتی ہے، جب ریاست سیاسی و داخلی طور پر مستحکم ہو۔ معیشت کی بات تو چھوڑیے، وطن عزیز قیام پاکستان سے لے کر اب تک سیاسی و داخلی طور پر ہی مستحکم نہیں ہو پایا۔ اس صورت حال میں اچھی سے اچھی تقریر بھی اقوام عالم کو متاثر نہیں کر سکتی۔ اور نہ ہی ان تقاریر سے ملکی تقدیر بدلنے والی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان حقیقتاً وطن عزیز کے مسائل کا حل چاہتے ہیں، تو اولین فرصت میں وطن عزیز کی سیاسی و داخلی صورت حال کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔ گلی گلی، کوچے کوچے، ملکوں ملکوں اقوام عالم میں یہ تاثر نہ دیں کہ سابقہ حکمران، تاجر و صنعت کار بد عنوان ہیں، منی لانڈرنگ کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اپنی یا دوسروں کی غلطیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا دانش مندی کا تقاضا نہیں ہے۔ جب وطن عزیز سیاسی و داخلی طور پر مستحکم ہوگا تو معیشت کا جام پہیہ پھر سے چل پڑے گا۔ سیاسی و داخلی اور معاشی سطح پر مستحکم پاکستان ہی اقوام عالم کی توجہ کا مرکز ہو سکتا ہے، نہ کہ اچھی تقریر۔