سعودی ایران کشیدگی اور امریکی کھیل

232

تنویر انجم

گزشتہ ہفتے سے مشرق وسطیٰ کے سیاسی افق پر چھائے ہوئے اہم ترین موضوع ’’ایران سعودی کشیدگی‘‘ میں اہم موڑ اُس وقت آیا جب یمن میں صدر عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت اور جنگ کے میدان میں اس کا ساتھ دینے والے سعودی زیر قیادت عرب اتحاد کے خلاف لڑنے والی اور سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل تنصیبات پر حملوں کی ذمے داری قبول کرنے والی حوثی ملیشیا کی جانب سے ایک امن منصوبے کے تحت حملوں کے خاتمے کی تجویز دی گئی، تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ حملوں کی ذمے داری لینے والوں کو جھوٹا کہا جا رہا ہے اور الزام کسی تیسرے فریق پر عائد کیا جا رہا ہے۔
ارامکو کی تنصیبات پر حملوں کے فوراً بعد جب سعودی حکومت خود خاموش تھی اور کسی حملہ آور کی براہ راست نشان دہی کے معاملے پر ابتدائی اور فوری ردعمل دینا نہیں چاہتی تھی، عین اسی وقت امریکا کی جانب سے ایران کو حملے کا براہ راست ذمے دار قرار دینا معنی خیز ہے۔ ساتھ ہی واشنگٹن حکام کی پھرتیاں بھی دیکھنے کو ملیں کہ انہوں نے زبانی مگر فیصلہ کن حیثیت سے تہران کو سعودی تیل تنصیبات پر حملوں کا ذمے دار قرار دینے کے بعد اس کے مبینہ ثبوت بھی ظاہر کردیے، اور پھر امریکی دعوے کے بعد عرب اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے عالمی میڈیا کو نہ صرف ثبوت دکھائے بلکہ تفصیلی بریفنگ بھی دی جس میں ارامکو کی تیل تنصیبات کا ذمے دار ایران کو قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا کہ حملے میں ایران کا ہاتھ ہے۔
سعودی اتحاد کے ترجمان نے کہا ہے کہ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ حملہ ایران کی جانب سے کیا گیا ہے، ایران شہری تنصیبات کو نشانہ بنارہا ہے اور حالیہ حملے کے بعد یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حملے میں استعمال ہونے والے میزائل ایرانی ساختہ ہیں۔ تیل تنصیبات پر ایرانی ساختہ میزائل یمن سے فائر ہوئے، ڈرون اور کروز میزائل کے ملبے کی تحقیقات سے ثابت ہوا ایرانی ساختہ ہے۔ کرنل مالکی کے مطابق ایرانی حملے کے شواہد اقوام متحدہ کو بھجوا دیے گئے ہیں اور اب تک کی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ حملے شمال کی جانب سے کیے گئے۔ملبہ ایرانی جارحیت کا ثبوت ہے اور اس میں ایرانی ڈیلٹاونگ کروز میزائل استعمال ہوئے ہیں۔ 18 ڈرون اور 7 میزائل استعمال ہوئے ہیں۔ ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ایرانی حملوں کا جواب مناسب طریقے سے دیا جائے گا۔
اسی دوران مریکی حکام نے بھی دعویٰ کر ڈالا کہ سعودی عرب میں تیل تنصیبات پر ایران کی سرزمین سے حملہ کیا گیا تھا۔ غیر ملکی خبررساں اداروں کے مطابق امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے ایران میں اس مقام کا پتا چلا لیا ہے جہاں سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ڈرونز اور کروز میزائل داغے گئے تھے۔ سینئر امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہےکہ امریکی انٹیلی جنس سروسز کے پاس میزائل داغنے کی جگہ کا تعین کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور اب تک جو تحقیقات کی گئی ہیں اس کے مطابق سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر جس جگہ سے حملے کیے گئے وہ مقام جنوبی ایران میں خلیج کے شمالی سرے پر واقع ہے۔
اُدھر ایران اپنے اوپر عائد ان الزامات کی مسلسل تردید کررہا ہے، تہران حکومت کا موقف ہے کہ امریکا ایران پر حملے کے جھوٹے جواز تلاش کررہا ہے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر براہ راست حملوں کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پورے معاملے میں تحقیقات اور فوری ردعمل دینے میں اِتنی جلد بازی خود سعودی عرب نے نہیں ظاہر کی جو ان حملوں کا براہ راست متاثر ہے بلکہ اس کے بجائے دنیا کے اس کونے میں موجود امریکا کو اس کی فکر زیادہ لاحق ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ حملوں کے بعد سعودی عرب میں نصب امریکی سیکورٹی دفاعی نظام کی صلاحیت کی قلعی کھل چکی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حملہ روکنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔
اس حوالے سے جدید ترین اسلحہ اور ہتھیاروں میں امریکا کے سب سے بڑے مقابل روس نے کھل کر سعودی عرب کی آئل تنصیبات پر حملے روکنے میں ناکامی پر امریکا کے فضائی دفاعی نظام پیٹریاٹ کو ناقص قرار دیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے جاری بیان میں کہا کہ مشرق وسطیٰ اور خطے سے باہر کے ممالک سعودی تیل تنصیبات پر حملوں سے متعلق جلد بازی میں کوئی نتیجہ نہ نکالیں، امریکا کے معاشی مقابل چین کی جانب سے سامنے آیا جس میں اس نے سعودی عرب اور امریکا کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات سے قبل ہی حملہ آور کی نشان دہی اور حملوں کی دھمکیاں درست عمل نہیں۔ اس کے نتیجے میں خطے میں نہ صرف کشیدگی پیدا ہوگی بلکہ پہلے سے جاری تناؤ میں اضافہ ہوگا۔ اسی دوران روسی وزارت دفاع کے ذرائع نے بتایا کہ سعودی عرب میں 88 پیٹریاٹ میزائل سسٹم نصب ہونے کے باوجود تیل تنصیبات پر ڈرون اور گائیڈڈ میزائلوں سے حملے کیے گئے اور پیٹریاٹ سسٹم انہیں روکنے میں بری طرح ناکام رہا۔ حکام نے سخت تنقید کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کا فضائی دفاعی نظام کم صلاحیت کا حامل ہے۔ روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکا نے سعودی عرب کے شمال میں طاقت ور دفاعی نظام اور ریڈار نصب کر رکھا ہے اور حالیہ حملے کی ذمے داری حوثی ملیشیا کی جانب سے قبول کرنے کے بعد اس دعوے کو تسلیم نہ کرنے کی واضح وجہ یہ ہے کہ اگر حوثیوں کا دعویٰ تسلیم کرلیا جائے تو اسے یمن میں عرب فوجی اتحاد کی ناکامی سمجھا جائے گا۔ امریکی حکام اپنی ناکامی چھپانے کے لیے وضاحت دے رہے ہیں کہ سعودی ائر ڈیفنس ایران سے ہونے والے حملے کو اس وجہ سے نہیں روک پایا کیوں کہ ان کا رخ یمن کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کو روکنے کے لیے جنوب کی جانب تھا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانے سے قبل ایرانی وزیر خارجہ نے سعودی عرب کے علاوہ خصوصاً امریکا کی جانب سے مسلسل دھمکیوں اور الزامات کے جواب میںردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر امریکا یا سعودی عرب نے حملہ کیا تو پھر مکمل تباہ کن جنگ ہو گی۔ عرب ٹی وی کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب نے بھی اسی دوران بیان میں خبردار کیا ہے کہ جو کوئی بھی ملک ایران پر حملہ آور ہوگا تو اس کی سرزمین کو تنازع کا اصل میدانِ جنگ بنا دیا جائے گا۔ بریگیڈئیر جنرل حسین سلامی نے تہران میں ہفتے کے روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کی سرزمین میدان جنگ بنے تو وہ آگے بڑھے۔ ہم کبھی کسی جنگ کو ایران کے علاقے تک آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
تازہ پیش رفت کے مطابق جب کئی ممالک کے سربراہان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا میں موجود ہیں، اقوام متحدہ نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی جانب سے ایک امن منصوبے کے تحت سعودی عرب پر تمام حملوں کے خاتمے کی تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ کہ اس تجویز سے ’جنگ کے خاتمے کی خواہش کا طاقتور پیغام‘ بھیجا جاسکتا ہے۔ یہ پیش کش حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کی تیل تنصیبات کو ڈرون اور میزائل حملوں سے نشانہ بنانے کے ایک ہفتے بعد کی گئی ہے۔
ٹی وی پر کیے گئے ایک اعلان میں حوثی باغیوں کی سپریم کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے کہا کہ وہ سعودی عرب پر تمام حملے ختم کر دیں گے بشرطیکہ سعودی حکومت اور اس کے اتحادی بھی ایسا کریں۔اگر ہماری پیش کش پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا تو ہمارے پاس واپس جانے اور اس کا جواب دینے کا حق محفوظ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یمن کے تمام فریقوں سے جامع قومی مفاہمت کی جانب مل کر کام کرنے کا مطالبہ کیا۔
اُدھر امریکا تہران کے خلاف اقدام کے لیے سعودی عرب سے زیادہ تیزی دکھانے میں کوشاں ہے۔ ایک جانب جب سعودی عرب کی جانب سے واضح کیا جا رہا ہے کہ ثبوتوں کی دستیابی اور ابھی تک کی تحقیقات میں ایران ہی حملوں کا ذمے دار نظر آ رہا ہے، اس کے باوجود سعودی وزیر خارجہ عادل جبیر نے باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعے اعلان کیا کہ وہ تحقیقات کے مکمل نتائج جاری کریں گے، تب تک سعودی عرب اپنے اتحادیوں سے مشاورت کررہا ہے اور س کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی ضروری اور مناسب اقدامات کرے گا جبکہ امریکا نے سعودی موقف کو خاطر میں نہ لاکر ہمیشہ کی طرح یکطرفہ فیصلہ کرتے ہوئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اپنی مزجد فوج بھیجنے کا اعلان کر ڈالا۔
امریکی سیکرٹری دفاع مارک ایسپر نے پینٹاگون میں پریس کانفرنس میں بتایا کہ صدر ٹرمپ نے سعودی عرب میں اضافی فوج بھیجنے کی منظوری دے دی ہے اور یہ فیصلہ امریکی قومی سلامتی کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکی فوجی صرف سعودی عرب ہی نہیں، متحدہ عرب امارات میں بھی تعینات کیے جائیں گے۔ مارک ایسپر نے واضح کیا کہ امریکا نے اضافی فوجی بھیجنے کا فیصلہ سعودی عرب کی درخواست پر کیا تاہم فوجیوں کی تعداد اور ہتھیاروں کی نوعیت کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ ان فورسز کی مدد سے دونوں ممالک کے فضائی اور میزائل دفاعی نظام کو بہتر بنایا جائے گا اور امریکا انہیں دفاعی سامان فراہم کرنے میں تیزی لائے گاتاکہ یہ دونوں ممالک اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کر سکیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا کی جانب سے سعودی عرب میں فوج بھیجنے کا اعلان ایران کو مزید ناراض کر سکتا ہے، جو اس قبل بھی خطے میں امریکی فوج کی موجودگی پر معترض رہا ہے۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علاحدگی کا یکطرفہ فیصلہ کرکے ٹرمپ نے جس طرح سے خطے کے امن کو تباہ کرنے کے کھیل کا آغاز کیا ہے اور اس حوالے سے وہ اپنے اتحادی ممالک جن میں کچھ عرب ملک بھی شامل ہیں، کو ساتھ لے کر ایران کے خلاف محاذ بنا رہا ہے، اس کا نتیجہ خود امریکا کی تباہی کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا۔ اس سے پہلے یکطرفہ اور بے بنیاد الزامات پر عراق پر امریکی حملے کی مثال لے لیں یا نائن الیون کو بہانہ بنا کر افغانستان میں امریکی دہشت گردی پر نظر دوڑائی جائے، ہر جانب امریکا کی پسپائی اور شرمناک شکست ہی نظر آتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے جس طرح اپنے اسلحہ اور ہتھیاروں کو دنیا کے سامنے خطرناک ظاہر کرتے ہوئے جنگوں کی بنیاد ڈالی، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ امریکی ہتھیاروں اور فوجوں سمیت اس کے حکمت عملیاں مسلسل ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں جبکہ دوسری جانب روس اور چین سپر پاور کے زعم میں مبتلا امریکا کے اپنے ہی زعم اور غلط تجربوں سے فائدہ اٹھا کر جو حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں، اس سے وائٹ ہاؤس خود پریشان ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ہر معاشی جنگ سمیت ہر محاذ پر امریکا کو دھول چاٹنا ہوگی۔