غیر معیاری دوائیں، پکڑ کون کرے گا؟

437

ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری لاہور نے 72 ادویات کو غیر معیاری قرار دے دیا ہے ۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے پاکستان میں فروخت ہونے والی ادویات کو غیر معیار ی قرار دیا ہو ۔ پاکستان میں ادویات کے معیار اور ان کی قیمتوں کو چیک کرنے کے لیے ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی آف پاکستان کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے جسے مختصرا ڈریپ کے نام سے پکارا جاتا ہے تاہم ا س کی کارکردگی اندرون سندھ قائم بھوت اسکولوں کے بھوت اساتذہ جیسی ہی قرار دی جاسکتی ہے ۔ یہ سفید ہاتھی پورے عملے اور ضروریا ت کے ساتھ موجود ہے مگر اس کی ساز باز سے عمران خان نیازی کے برسراقتدار آتے ہی دواؤں کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کردیا گیا ۔ اسی طرح ملک میں جعلی اور غیر معیاری ادویات انتہائی مہنگے داموں فروخت کی جارہی ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کریک ڈاؤن نہیں ۔ پاکستان کے لوگ جنہیں سرکاری طور پر علاج معالجے کی کوئی حقیقی سہولت موجود نہیں ہے ، وہ اپنی تمام تر بچتوں کو استعمال کرکے انتہائی مہنگا علاج کروانے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ کینسر جیسی دیگر موذی بیماریوں کے علاج کے لیے انہیں اپنے اثاثے فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ بھاری قرض بھی لینے پڑ جاتے ہیں۔ ایسے میں غیر معیاری اور جعلی ادویات کی کھلے عام فروخت مجرمانہ فعل ہے ۔ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری نے تو جعلی اور غیر معیاری ادویات کی نشاندہی کردی ، اب یہ ارباب اقتدار کی ذمہ داری ہے کہ ان جعلی اور غیر معیاری ادویات مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کرنے والوں کو کڑی سزائیں دیں تاکہ ایسا کرنے والوں کو اپنے کیے کی مناسب سزا مل سکے اور دیگر کو عبرت حاصل ہو ۔ پاکستا ن میں یہ المیہ ہے کہ یہاں ہر کسی کو ہر جرم کرنے کی آزادی ہے ۔ عدالت عظمیٰ کی سطح پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ٹیٹرا پیک دودھ فروخت کرنے والی کمپنیاں اصلی دودھ فروخت نہیں کررہی ہیں بلکہ اس میں پاؤڈر کے دودھ اور دیگر مضر صحت کیمیکل کی آمیزش کررہی ہیں مگر کسی ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ اسی طرح متعدد مرتبہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بوتلوں میں منرل واٹر کے نام پرفروخت ہونے والا پینے کا پانی معیاری نہیں ہوتا بلکہ گھروں میں عام نلکوں سے آنے والا پانی زیادہ صحت بخش ہے مگر کسی ایک کمپنی اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ اگر عدلیہ کی سطح پر الزام ثابت ہونے کے بعد بھی ایسے مجرم نہ صرف آزاد ہیں بلکہ اپنے جرم کو مزید جاری بھی رکھے ہوئے ہیں تو اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان مجرموں کے لیے محفوظ جنت ہے ۔ ہم ارباب اقتدار سے مطالبہ کریں گے کہ قوم کے ان مجرموں کے خلاف کہیں سے تو آغاز کریں ۔ پوری دنیا میں ایسے مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی جاتی ہیں کہ یہ لوگ کسی ایک شخص کے خلاف کوئی جرم نہیں کررہے ہوتے بلکہ پوری قوم کی صحت اور ملک کے مستقبل سے کھیل رہے ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں چونکہ ان تمام کمپنیوں کے مالکان کے سیاستدانوں ، ججوں اور جرنیلوں سے قریبی تعلقات ہیں اور یہ انہیں فراخدلانہ نوازتے بھی ہیں تو ایسے میں اگر کوئی سرکاری افسر ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اسے ہی نشان عبرت بنادیا جاتا ہے ۔ آخر کب تک پاکستانی قوم ان بااثر مجرموں کا شکار ہوتی رہے گی ۔