تئیس ستمبر… مولانا مودودی کی رحلت

754

میر حسین علی امام

یہ 1979ء کی بات ہے۔ الاعظم، شریف آباد کے علاقے میں شبیر ابن عادل نے نوجوان دوستوں کے ساتھ مل کر جشن مولانا مودودی کمیٹی بنائی اور مولانا کو خط ارسال کیا کہ آپ کا 75 سالہ جشن منائیں گے۔ مولانا نے جواب دیا کہ اسلام میں شخصیت پسندی نہیں ہے اس لیے جشن نہ منائیں ہاں کتابوں کا مطالبہ کریں اور تعمیر سیرت کے لیے اخلاقیات و معاملات پر توجہ دیں۔ شبیر ابن عادل سے دوستی، علم دوستی کی بنیاد پر تھی۔ شبیر ابن عادل نے سید اسعد گیلانی کی کتاب ’’سید مودودی صاحب‘‘ پڑھنے کو دی۔ اس کتاب کو پڑھ کر اس کے اہم اقتباسات کی تلخیص کرکے میں نے اپنا مضمون ’’مولانا مودودی اور اردو ادب‘‘ تحریر کیا اور روزنامہ جسارت کے میگزین انچارج ثروت اصمعی صاحب کو دیا کہ مولانا کی 75 سالہ سالگرہ کے حوالے سے مولانا کی علمی، ادبی خدمات کا احاطہ کرتا ہے۔ آپ اس مضمون کو ادبی صفحہ ’’ادب و ثقافت‘‘ میں لگائیں۔ ثروت صاحب نے مجھے دیکھا میں B.SC کا طالب تھا، اچھا کہا اور مضمون لے لیا۔ مولانا مودودیؒ کا تعلق ریاست حیدر آباد کے شہر اورنگ آباد سے تھا۔ 25 ستمبر 1903ء کو آپ پیدا ہوئے تھے۔ 25 ستمبر کو مضمون شائع ہونا تھا۔ 23 ستمبر کو اطلاع آئی کہ مولانا صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ہر طرف صف ماتم مچ گئی۔ الاعظم، شریف آباد، جنگ، جسارت سبھی اخبارات کے سینئر، جونیئر صحافی، جماعت اور جمعیت کے ساتھی، کارکنان، سب غم زدہ، افسردہ ہوگئے۔ مضامین، تعزیتی بیانات، اداریے، رپورٹیں، یادیں، تاثرات بھی شائع ہونے لگے۔ ادبی صفحہ پر میرا مضمون معمول کے مطابق لگ گیا جس میں حُسن اضافہ ’’ رح‘‘ کا تھا!۔ دل کٹ گیا۔ وہ واحد مضمون تھا کہ چھپنے پر شائع ہونے پر خوشی کے بجائے دل سے رویا۔ اُداسی کی لہر، شام عصر، مغرب، عشا کی نمازیں مسجد صفا میں ادا ہوئی تھیں۔ سب ساتھی ملے، بجھے لہجے میں سپاٹ لہجے میں اطلاع دی کہ آپ کا مضمون شائع ہوا، چند دن کے بعد جب غم کی شدت میں کمی آئی تو تبصرے ہونے لگے۔ 1985/86ء کا سن تھا، میں فاران شوگر شیخ بھرکیو میں تھا۔ ٹنڈو محمد خان قریبی شہر تھا، آذر حفیظ کی وجہ سے روزنامہ جنگ کے مثال رضوی سے دوستی ہوئی اور مثال رضوی نے سعود روزنامہ جسارت کے نمائندے سے ملاقات کرائی۔ عبدالخالق ازہر، کامران سعید، اقبال پیرزادہ وغیرہ ادبی نشستیں کرتے تھے۔ میں بھی شفٹوں کی نوکری کی وجہ سے مہینہ میں ایک مرتبہ حصہ لیتا تھا۔ ماتلی سے لالہ صحرائی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ نعیم صدیقی صاحب کے ’’سیارہ‘‘ مولانا مودودی صاحب پر ایک اہم ضیخم نمبر شائع ہوا ہے اُس میں آپ کا بھی مضمون شامل ہے۔ میرے اصرار پر انہوں نے وہ رسالہ لا کر دکھلایا۔ مضمون پر میرے نام کے ساتھ حسن اضافہ ’’رح‘‘ دیکھ کر وہی کرب، شدت محسوس کی۔ یہ غلط فہمی کاتب کی تھی یا ادارے کی۔ عملاً ہوئی یا سہواً۔ میں نے ’’سیارہ‘‘ کے نام خط ارسال کیا۔ خط بھی ادارے نے شائع کیا اور جواب بھی۔ حافظ افروغ حسن نے جواب میں تحریر فرمایا کہ ’’حسین علی امام‘‘ کے نام سے غلط فہمی ہوئی اور توجہ تحریک پاکستان کے رہنما کی طرف رہی۔ اس لیے ان کی نسبت سمجھ کر ’’رح‘‘ کا اضافہ کیا گیا۔ آپ کا مضمون چوں کہ بہت اچھا تھا اور مولانا کی ادبی شخصیت کے پہلو کے حوالے سے تھا۔ اس لیے انتخاب میں شامل کیا گیا تھا۔ غلطی پر معذرت۔ مولانا نعیم صدیقی صاحب نے آپ کے لیے دعا لکھوائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عمر دراز کرے اور آپ دین کی دعوت کا کام جاری رکھیں۔ 1987ء کو میں حیدر آباد دکن گیا تو وہاں رہنمائے رکن کے آفس میں کا صحافی چندر سری واستو صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے انقلاب ایران کے بعد آیت اللہ خمینی کی دعوت پر ایران کا مطالعاتی دورہ کیا تھا۔ گفتگو میں انہوں نے بتلایا کہ مولانا مودودیؒ کی کتب وہاں کی اہم لائبریریوں میں موجود ہیں اور سیاسی قائدین کے طور پر ان کی کتابوں کے ریفرنس دیے جاتے ہیں۔ میرے لیے یہ ایک اہم انکشاف تھا۔ جب 2007ء میں گستاخی رسول کے خلاف تحریک چلی تو ایک سنی عالم دین سیاسی سربراہ سے میری ملاقات ہوئی تو اس واقعے کا بھی تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ مولانا صاحب کی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ شہادت حسین کے حوالے سے اہم تصنیف ہے اور ایران میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
روزنامہ جنگ کے مذہبی صفحہ کے انچارج محترم مفتی جمیل خان، یوسف لدھیانوی کے شاگرد تھے۔ بعد میں ختم نبوت کی تحریک کے لیڈر مقرر ہوئے۔ میں نے ان سے مولانا مودودیؒ کی کتاب ’’ختم نبوت‘‘ کے حوالے سے جب استفسار کیا تو فرمانے لگے۔ اس موضوع پر اولین کام کرنے والوں میں مولانا صاحب بھی تھے اور 1953ء کی تحریک میں بہت کام کیا تھا۔ 7ستمبر کو ختم نبوت کا دن منایا جاتا ہے دیگر علما کے ساتھ مولانا مودودی بھی اس تحریک کے اہم رہنما تھے۔
جب میں نے 2003ء کے بعد احکام قرآن تالیف کرنے کا آغاز کیا تو تفسیر صدیقی، تفہیم القرآن، معارف القرآن فروری کا مطالعہ شروع کیا اور نکات جمع کرنے لگا۔ اسی دوران میں ایک مشہور ترقی پسند ادیب، دانشور، مدیر سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ تفہیم القرآن اور مولانا کا نام، تذکرہ آتا تو وہ تفہیم میں ارض القرآن، تاریخ پر سیر حاصل گفتگو کرتے اور مولانا صاحب کی علمی وسعت پر اظہار خیال کرتے مجھے یہ دنشور ایسے لگے کہ مولانا نے ترقی پسندوں کو بھی اپنے علم کے حصار میں، عقلیت، تاریخ، استدلال سے قائل کیا۔ چند اسرائیلیات پر نکتہ یا اعتراض اپنی جگہ قائم تھے۔ اس کی تسلی کے لیے تحقیق شروع کی تو جماعت کے اہم رکن حکیم مولانا عبدالوہاب سے بہت ملاقاتیں ہوئیں۔ مولانا عبدالوہاب کے والد بزرگوارحکیم مولانا عبدالجبارؒ بہت بڑے عالم دین تھے اور مولانا مودودی سے دوستانہ تھا اور مولانا مودودی کراچی میں مولانا عبدالجبار کے گھر میں ٹھیرا کرتے تھے۔ مولانا عبدالوہاب کے مختلف حلقوں سے چند نکات پر اعتراضات ہوتے رہے۔ بعض پر انہوں نے اصلاح و ترمیم کرلی اور بعض پر نہیں کہ علمی اختلاف ہے۔
مولانا مودودیؒ اردو صحافت و ادب کا ایک اہم نام ہے مگر دعوت کے کام نے، جماعت اسلامی کے سیاسی جماعت کے لیڈر ہونے کی وجہ سے آپ کی ادب و صحافت کا پہلو کمزور ہوگیا یا لوگوں کی نگاہ سے اوجھل ہوگیا۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے ایک دوست مظہر ممتاز قریشی بہادر یار جنگ اکادمی کے نظما میں سے تھے۔ جنوبی ہند میں قرآن کریم پر تحقیقی کام کیا اور تصنیف لکھی۔ آپ فرماتے تھے کہ ڈاکٹر حمید اللہ اور مولانا مودودی دونوں نے ترجمان القرآن میں تین سال کام کیا، ڈاکٹر حمید اللہ جب فرانس چلے گئے تو مولانا مودودی ترجمان القرآن لے کر پٹھان کوٹ پھر منصورہ۔ ڈاکٹر حمید اللہ اور مولانا مودودی کی فکر، اساس، تحریری مزاج، تحقیقی انداز بہت ملتے ہیں۔ قرآنیات، تفاسیر، سیرت طیبہؐ پر کام کرنے والے اسکالرز، ریسرچ، تحقیق کو اس موضوع پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ACEکمپنی کے CEO محترم وحید الدین صاحب کو قرآن و سیرت پر پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ معلومات کرنے پر علم ہوا کہ خرم جاہ مراد سے ملاقاتوں کا فیض ہے۔ آپ نے خرم جاہ مراد کی قرآن پر کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا۔ جب میں نے اس کا ترجمہ پڑھا تو مولانا مودودی کا پرتو نظر آیا۔
جب میں نے ’’دعوت قرآنی‘‘ تحریر کی تو ’’خطبات‘‘ نے بڑی رہنمائی کی۔ میں نے سوچا 1938ء پنجاب کا ماحول، آسان لہجہ، آسان بیاں 80 سال کے بعد بھی کتاب بدلتی ہے، خطبہ زندہ ہے ، بیان زندہ ہے۔
اشرف موٹن صاحب نے مولانا وحید الدین کا ترجمہ قرآن عطا کیا۔ دیباچہ پڑھا۔ ’’پیغمبر انقلاب‘‘ بھی پڑھ رکھی تھی۔مولانا کا اندازِ تحریر اور وہی دعوت کا انداز، وہی فکر… مولانا نے اس صدی کے مفکرین، دانشور طبقے کو متاثر کیا۔ اسلامی دعوت یا اسلامی تحریکوں کے لیے قرآن و سنت، سیرت پر ٹھوس مواد، مستند دلائل، آساں انداز بیاں، فکر و استدلال مولانا کی تحریر وں میں ملتا ہے۔ ادب و صحافت میں نئے ویژن کے ساتھ افکار کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔