اور اب ’’آزادی مارچ‘‘

365

پچھلے دنوں ’’اسلام آباد لاک ڈائون‘‘ کا بڑا چرچا تھا۔ یہ حضرت مولانا فضل الرحمن کا منصوبہ تھا جس کے ذریعے وہ عمران خان کی حکومت کو گرانا چاہتے تھے۔ مولانا ایک زیرک سیاستدان ہیں اور سیاسی ہوم ورک کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ چناں چہ انہوں نے اپنے منصوبے کو روبہ عمل لانے کے لیے بھی بہت ہوم ورک کیا۔ وہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قائدین سے بار بار ملتے رہے اور انہیں اپنے منصوبے کے حق میں قائل کرنے کی پوری کوشش کی، انہیں بتایا کہ اسلام آباد کا محاصرہ تو ان کی جماعت کے کارکن کریں گے۔ وفاقی دارالحکومت میں ان کارکنوں کے قیام و طعام کی ذمے داری بھی ان کی ہوگی بس مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاسی حمایت درکار ہے۔ اس مقصد کے لیے حضرت مولانا نے اے پی سی بھی بلائی جس میں جماعت اسلامی کو چھوڑ کر باقی سب اپوزیشن جماعتوں نے شرکت کی۔ جماعت اسلامی کی عدم شرکت کی وجہ سے یہ نہیں تھی کہ وہ عمران حکومت کی حامی ہے اور اس کے خلاف تحریک چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ تحریک تو وہ چلا رہی ہے لیکن اس نے حکومت کو اپنے اعصاب پر سوار نہیں کر رکھا۔ جو مسائل زیادہ توجہ طلب ہیں وہ ان پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ بہرکیف اے پی سی ہوئی اور بہت بھرپور ہوئی۔ تمام چھوٹی بڑی اپوزیشن جماعتیں شریک ہوئیں۔ حضرت مولانا نے میزبانی کی اور اپنے مہمانوں کو بتایا کہ حکومت کو گرانے کے لیے ان کا صرف سیاسی تعاون درکار ہے اور اے پی سی بلانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں اس نیک کام میں ان کی سیاسی و اخلاقی حمایت کریں۔ سیاسی لیڈروں نے بڑھ چڑھ کر تقریریں کیں۔ مولانا کی سیاسی فراست کو سراہا لیکن کوئی بھی اسلام آباد لاک ڈائون کی حمایت پر آمادہ نہ ہوا اور حضرت مولانا ہاتھ ملتے رہ گئے۔ پھر اچانک کشمیر کا بحران شروع ہوگیا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں یک طرفہ غیر قانونی اقدامات کرکے پوری دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی طرف مبذول کرائی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی، کنٹرول لائن پر جھڑپیں روز کا معمول بن گئیں۔
ایسے میں حکومت کے خلاف تحریک چلانا اور اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنا بے وقت کی راگنی معلوم ہونے لگا لیکن حضرت مولانا اپنی ہٹ کے پکے اور اپنی بات کے پورے ہیں انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے ہدف سے نظر نہیں ہٹائی البتہ اپنی حکمت عملی میں یہ تبدیلی کی کہ اسلام آباد لاک ڈائون کو ’’آزادی مارچ‘‘ کا نام دے دیا۔ اہل کشمیر نے بھی اپنی تحریک کو آزادی مارچ کا نام دے رکھا ہے وہ ہر روز کرفیو کی پابندیاں توڑ کر باہر نکلتے ہیں اور پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے آزادی کے حق میں نعرے لگاتے ہیں لیکن حضرت مولانا کا ’’آزادی مارچ‘‘ بھارت کے خلاف نہیں، خود اپنی حکومت کے خلاف ہے۔ اس حکومت سے لاکھ اختلاف سہی اور شاید ہی کوئی معقول آدمی سے اختلاف نہ رکھتا ہو لیکن ہے تو یہ پاکستان کی اپنی حکومت اسے کسی وقت بھی ووٹ کی پرچی سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ البتہ کشمیریوں کو اس قیامت خیز بحران سے نکالنا آسان نہیں، اس کے لیے ہمیں اپنے تمام داخلی مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے بحیثیت قوم متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ بس یہی بات حضرت مولانا کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ انہوں نے عمران خان کو مستعفی ہونے کے لیے ایک ڈیڈ لائن بھی دی تھی وہ ڈیڈ لائن گزر گئی لیکن حضرت مولانا کے عزم میں کوئی دراڑ نہیں آئی اب انہوں نے عمران خان کے استعفے کے ساتھ قومی اسمبلی کی تحلیل اور نئے انتخابات کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔ یہی ’’آزادی مارچ‘‘ کا منشور ہے جس کے لیے وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو منانے میں مصروف ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کی مشکل یہ ہے کہ ان کے صف اول کے قائدین جیلوں میں ہیں جہاں وہ پرآسائش زندگی کے لیے ترس رہے ہیں اگر یہ جماعتیں حکومت سے ٹکر لیتی ہیں تو جیلوں میں نظربند قائدین مزید دشواریوں کا شکار ہوجائیں گے اس لیے دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ حضرت مولانا سے فاصلہ رکھا جائے اور ان کی مہم جوئی کی اخلاقی حمایت کے سوا کوئی عملی قدم نہ اُٹھایا جائے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے تو انہیں صاف جواب دے دیا ہے۔ رہی مسلم لیگ (ن) تو وہ گومگو کی حالت میں ہے۔ میاں نواز شریف نے جیل سے پیغام بھیجا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دیا جائے۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ انہیں ایسا کوئی پیغام نہیں ملا۔ مولانا فضل الرحمن نے شہباز شریف سے ملاقات کرکے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ البتہ دونوں لیڈر اس پر متفق ہوگئے ہیں کہ ’’آزادی مارچ‘‘ کا اعلان اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔ بعد میں شہباز شریف نے جیل میں بھائی جان سے ملاقات کرکے انہیں سمجھایا ہے کہ یہ خسارے کا سودا ہے آپ جذباتی نہ ہوں۔
ادھر وفاقی دارالحکومت میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ڈیل یا ڈھیل کی باتیں بھی گردش میں ہیں۔ شیخ رشید بھی آئے دن پھلجڑیاں چھوڑ رہے ہیں ان کا اندازہ ہے کہ میاں نواز شریف کے اچھے دن عنقریب آنے والے ہیں اور شاید زرداری کو بھی ریلیف مل جائے۔ شہباز شریف نے عمران خان کے دورئہ امریکا کے موقع پر تعاون کی یقین دہانی کراکے مثبت اشارہ دیا ہے۔ دوسری طرف منی لانڈرنگ کیس میں ماخوذ زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کو ایک اچھا فیصلہ قرار دیا ہے۔ اسے بھی پیپلز پارٹی کی جانب سے مقتدر قوتوں کے ساتھ بنا کر رکھنے کی مثبت پالیسی قرار دیا جاسکتا ہے۔ یوں دونوں بڑی سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ فی الحال اس سے ٹکرانے کا ارادہ نہیں رکھتیں جب کہ حضرت مولانا وقت ضائع کیے بغیر حکومت کے ساتھ تصادم کے حق میں ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد پر دوچار لاکھ نہیں پندرہ لاکھ افراد یلغار کریں گے جنہیں حکومت کے لیے سنبھالنا ناممکن ہوگا اور وہ ان کی ٹھوکر سے زمین بوس ہوجائے گی۔ اب سوشل میڈیا پر لوگ پوچھ رہے ہیں کہ حضرت مولانا کس کے بُرتے پر ’’آزادی مارچ‘‘ کرنے جارہے ہیں اس منصوبے پر کون سرمایہ کاری کررہا ہے؟ بعض لوگوں نے تو بدگمانی کی انتہا کردی ہے وہ اس منصوبے کا تانا بھارت سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں جمعیت علمائے ہند نے مقبوضہ کشمیر میں مودی کے اقدامات کی حمایت کی ہے اور پاکستان میں مولانا فضل الرحمن بھی ’’آزادی مارچ‘‘ کے ذریعے کشمیر کاز کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حضرت مولانا ایک سچے اور پکے پاکستانی ہیں۔ عمران حکومت کے خاتمے کے لیے سیاسی جدوجہد کرنا ان کا حق ہے لیکن اس کے لیے غلط وقت کا انتخاب کرکے انہوں نے لوگوں کو انگلی اٹھانے اور کیچڑ اچھالنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔
بہرکیف حضرت مولانا ان باتوں سے گھبرانے والے نہیں۔ ان کا ارادہ اٹل ہے وہ اکتوبر میں اسلام آباد پر یلغار کرنے والے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان سے بچائو کی کیا تدبیر کرتی ہے۔