طالبہ ہلاکت کیس ، نمرتا مہران ابڑو کے گھر والوں کا خرچ اْٹھاتی تھی

371
حیدرآباد: سول سوسائٹی کے تحت ڈاکٹرنمرتا کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کیا جارہاہے
حیدرآباد: سول سوسائٹی کے تحت ڈاکٹرنمرتا کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کیا جارہاہے

لاڑکانہ (خبر ایجنسیاں) نمرتا ہلاکت کیس میں پولیس کی تحقیقات اور تفتیش تاحال جاری ہے جس میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اہم انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ پولیس نمرتا کیس سے متعلق مہران ابڑو اور علی شان میمن سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق مہران ابڑو اور نمرتا کی دوستی ڈینٹل کالج میں 2015ء میں ہوئی جو پیار میں تبدیل ہو گئی۔مہران ابڑو کے والد عبد الحفیظ ریٹائرڈ بینک ملازم اور والدہ ٹیچر ہیں۔ نمرتا چار سال تک مہران ابڑو اور اس کے خاندان کا خرچ چلاتی رہی۔ نمرتا کا اے ٹی ایم کارڈ بھی مہران ابڑو کے استعمال میں تھا۔ مہران کی بہنوں کو نمرتا شاپنگ بھی کرواتی رہی۔ نمرتا کو مہران کے والدین شادی کا آسرا دیتے رہے۔ لیکن چار سال کے بعد مہران کے والدین نے شادی سے انکار کر دیا۔تفتیشی ذرائع نے کہا کہ نمرتا کے اہل خانہ ساری صورتحال سے واقف تھے۔ مہران ابڑو اور اس کے اہل خانہ نمرتا کے بھائی کی کراچی میں ہونے والی شادی میں بھی شریک ہوئے تھے۔ نمرتا کیس میں پولیس نے کالج کے پروفیسر کا بیان بھی ریکارڈ کیا۔ کالج کے سینئر پروفیسر امر لعل نے پولیس کو دیے گئے بیان میں کہا کہ نمرتا کچھ وقت سے کسی مسئلے کو لے کر پریشان تھی، وہ کئی بار پروفیسر امر لعل کے پاس آئی، وہ روئی اور پریشانی کا شکار ہونے کا بتایا۔ پروفیسر امر لعل نے بتایا کہ نمرتا روتی تھی اور کہتی تھی کہ مجھے ہمت چاہیے کہ میں اس مسئلے سے نکلوں، بہت پوچھنے پر بھی مسئلہ نہیں بتایا جس پر میں نے نمرتا کو یوگا اور ورزش، گیت سننے کا مشورہ دیا۔ پولیس نے نمرتا کے دو ہم جماعتوں سمیت 32 افراد کے بیان قلمبند کر لیے ہیں۔ اس کے علاوہ پولیس نمرتا اور مہران کے درمیان تعلق پر وسیم میمن نامی شخص کی دلچسپی پر بھی تحقیق کررہی ہے۔دوسری جانب ایس ایس پی مسعود بنگش نے نمرتا کے لواحقین سے متعدد بار رابطہ کیا ہے اور انہیں واقعے کا مقدمہ درج کروانے کا کہا ہے تاہم نمرتا کے ورثاء جامعہ بے نظیر کی وائس چانسلر کو مقدمے میں نامزد کرنے پر بضد ہیں جب کہ نمرتا کے لواحقین کو ہندو کمیونٹی کے معززین نے مشورہ دیا ہے کہ ادارے کی سربراہ کو مقدمے میں نامزد کرنے سے کیس کمزور ہوگا۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ لاڑکانہ میڈیکل کالج کی طالبہ کی ایک اور ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں اسے اپنے دوست مہران کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔فوٹیج میں نمرتا اپنے دوست مہران ابڑو کے ساتھ رات دیر تک کالج لان میں بیٹھی نظر آ رہی ہیں۔نمرتا اور مہران آپس میں گفتگو کر رہے ہیں۔ اسی حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ہنس مسرور بدوی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1990 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں میری خالہ ڈاکٹر فوزیہ بھٹو کو پیپلز پارٹی کے سابق وزیر قانون رحیم بخش جمالی نے اس لیے قتل کیا کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔آج نمرتا کا پالا بھی شاید کسی ایسے وڈیرے سے نہ پڑا ہو جو سندھ کے کالجز پرنظر رکھے ہوتے ہیں۔1990ہنس مسرور بدوی کی ٹویٹ بالکل ہی ایک نئے معاملے کی طرف اشارہ کر رہے ہیںلیکن نمرتا کی موت کیسے ہوئی یہ تو مکمل تحقیقات کے بعد ہی واضح ہو گا۔واضح رہے کہ 16 ستمبر کو آصفہ بی بی ڈینٹل کالج لاڑکانہ کے ہاسٹل سے نمرتا چندانی کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ سندھ حکومت نے نمرتا چندانی کی ہلاکت کی وجوہات جاننے کے لیے جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا تھا۔
نمرتا ہلاکت کیس