واٹروسیوریج چارجز کی عدم ادائیگی سے ملازمین کی تنخواہ کی ادائیگی نہیں پا ہوتی ، محمد نواز

322

حیدرآباد

ادارئہ ترقیات حیدرآباد کے ڈائریکٹر جنرل محمد نواز سوہو نے کہا ہے کہ ادارہ ترقیات حیدرآباد کے ماتحت محکمے مالی صورتحال اَبتر ہونے کی وجہ سے ملازمین کو بروقت تنخواہوں کی بروقت ادائیگی سے بھی قاصر ہیں۔ حیدرآباد کے مسائل کے مقابلے میں وسائل کی کمی ہے اور شہر جس کی آبادی جو ایچ ڈی اے معرض وجود میں آنے پر صرف 5 لاکھ کے لگ بھگ تھی جبکہ اَب آبادی 20 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت سندھ ایمرجنسی میں فنڈز مہیا کرتی ہے، 1990ءسے حکومت کی جانب سے سبسڈی بھی ختم کردی گئی ہے

پاکستان کے دوسرے شہروں میں سبسڈی متواتر دی جارہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن کا تعلق حیدرآباد سے ہے وہ چاہیں گے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کا کام کریں۔ حیدرآباد کا ماسٹر پلان تیار کیا جارہا ہے تاکہ منصوبہ بندی کے تحت ترقیاتی کام کرائے جاسکیں۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اَب تک اُنہوں نے مختلف محکموں میں جو خدمات انجام دی ہیں اُسی انداز میں خدمات انجام دیں تاکہ لوگ اُن کی خدمات کو یاد رکھیں اور حیدرآباد کی صورتحال بحال ہوسکے۔ اِس سلسلے میں اُنہیں حیدرآباد کے صنعتکاروں اور تاجروں کے بھرپور تعاون کی ضرورت ہے۔

اُنہوں نے پیشکش کی کہ پارک، گرین بیلٹ کو بحال کرنے اور دوسرے رفاہِ عامہ کے کاموں میں اگر بزنس کمیونٹی تعاون کرتی ہے تو وہ یہ پروجیکٹس اُن کے حوالے کرنے کو تیار ہیں تاکہ تاجر برادری کا بھی شہر کی بھلائی میں کردار نظر آئے۔ اُنہوں نے کہا کہ واسا اِس وقت حکومتی اور عوام سے موصولہ آمدنی خرچ کررہا ہے اور پانی کو صاف کرنے کے لیے جن اشیاءکی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ دوسری طرف ایچ ڈی اے کے پاس اسٹاف کی انتہائی کمی ہے اور نئی تقرریاں نہیں ہورہیں۔ سنیٹیشن اسٹاف بھی بہت کم ہے اور بڑی مشکل سے کسی ایمرجنسی میں کام سر انجام دیا جاتا ہے، پانی چوری ہورہا ہے جس میں عوام اور محکمہ کے لوگوں کا گٹھ جوڑ شامل ہے جب محکمے کے اہلکار اور عوام مل جائیں گے

چوری تو ہوگی۔ اُنہوں نے کہا کہ اِس وقت بچوں اور بڑوں کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ فضول پانی نہ استعمال میں لائیں ۔ واٹر سپلائی کے پانی پر فقط انحصار نہ کیا جائے اور پلازہ بناتے وقت برتنے کے لیے بورنگ کروائیں اور اِس سے استعمال فرش اور گاڑیاں دھونے کا کام کریں۔ پانی کی تقسیم بھی منصفانہ نہیں ہورہی کہیں تو بہت پانی دیا جارہا ہے اور کہیں ڈنکی پمپس سے بھی پانی نہیں آتا ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ واسا کے پریشر سے ہی پانی صارفین تک پہنچے۔ اُنہوں نے کہا کہ لوگوں کو ایجوکیٹ کریں کہ وہ واسا کے واجبات کی ادائیگی کریں جب اُن سے ادائیگی کے لیے کہا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ پہلے پانی دو پھر بل جمع کرائیں گے۔ جبکہ منرل واٹر خریدنے کے لیے ایڈوانس رقم دے کر منرل واٹر حاصل کیا جاتا ہے، واسا پر حیسکو کے واجبات بھی بڑھ گئے ہیں، واٹر کمیشن سے متعلق ہائی کورٹ میں مقدمات زیر سماعت ہیں وہ حیدرآباد کو گرین اور کلین بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے تاجر برادری پارکوں اور گرین بیلٹس کو خوبصورت بنانے کے لیے  کرے اور شجر

کاری مہم میں حصہ لے۔ وہ چاہیں گے کہ ہر صارف کو ڈنکی پمپ کے بغیر پریشر سے پانی مہیا ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت سے 151 سوئپرز کی تعداد منظور ہو کر آئی ہے اور جلد صفائی کے اسٹاف کی تعداد بڑھ جائے گی۔ وہ حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کی جانب سے دیئے گئے استقبالیہ سے چیمبر کے کانفرنس ہال میں صدر چیمبر کی جانب سے پیش کردہ سپاسنامہ کا جواب دے رہے تھے۔

اِس سے قبل صدر محمد فاروق شیخانی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ حیدرآباد میں صحت و صفائی اور سیوریج سسٹم کی اصل ناکامی حیسکو کی وجہ سے جو شٹ ڈاﺅن ، لوڈشیڈنگ کے نام پر روزانہ کی بنیاد پر بجلی بند کرنے اور خاص طور پر ایمرجنسی کے موقع پر کئی کئی روز بجلی کا منقطع ہو جانا ہے جس سے واٹر سپلائی اور سیوریج سسٹم کا نظام قطعاً فیل ہوجاتا ہے اور سڑکوں، گلیوں اور گھر تالاب کا منظر پیش کرتے ہیں

لوگوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور شہر کی عمارات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے ۔ لہٰذا ایچ ڈی اے کے ساتھ ساتھ حیسکو اور دیگر بلدیاتی اداروں کو بھی راہِ راست پر لانے کی ضرورت ہے اِس کے لیے حکومت سندھ خصوصی طور پر وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ کو اپنا کردار نبھانا ہوگا اور حیدرآباد کی طرف خصوصی توجہ اور مناسب فنڈز دینے کی ضرورت ہے ۔ اُنہوں نے کہا واسا کے لیے سینٹری ورکرز اور سپروائزری اسٹاف میں فوری اضافہ کیا جائے اور سبسڈی بحال کرکے اُس کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کیا جائے۔ ایک پیچیدہ مسئلہ بلدیاتی اداروں کی جانب سے اپنی ذمہ داریاں دوسرے محکموں پر ڈال کر اپنی خراب کارکردگی کو چھپانے کی کوشش کرنا بھی ہے اِس سلسلے میں اُن کی تجویز ہے کہ ڈویژن کی سطح پر تمام سوک ادارے کمشنر ڈویژنز کے ماتحت کردیئے جائیں کیونکہ پورے سندھ کے بلدیاتی اداروں کی کنٹرولنگ اتھارٹی حکومت سندھ کو بنادیا گیا ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک وزیر بلدیات پورے سندھ کی کارکردگی کو کنٹرول یا بہتر بناسکے اور اِن محکموں کے درمیان جو تناتنی چلتی ہے اُن کو کنٹرول کرسکے۔

لہٰذا کمشنر حیدرآباد سمیت تمام ڈویژنل کمشنرز کو اُن کی کمشنری میں موجود بلدیاتی اداروں اور دیگر محکموں کی کنٹرولنگ اتھارٹی بنایا جائے تاکہ وہ اِن محکموں کے چیک اور بیلنس کا جائزہ لیتا رہے اور اگر کہیں دو محکموں میں تنازعہ ہو اُس کو بھی ڈویژنل سطح پر حل کراسکے۔ اِس موقع پر ایچ ڈی اے سے سید ندیم رضوان، کفیل احمد، عبدالحفیظ مغل، محسن جعفری، سلیم الدین قریشی، محمد عارف میمن، محمد اکرم انصاری، سکندر علی راجپوت، دولت رام لوہانہ، معیز عباس، محمد یاسین خلجی اور ایک بہت بڑی تعداد تاجر و صنعتکاروں کی موجود تھی۔