مذہب یا تہذیب

209

ابوالحسن ندوی

دراصل ان تہذیبوں کے مٹ جانے میںا ﷲ کا بڑا فضل شامل تھا، ان کے ساتھ ان کی بہت سی بے اعتدالیاں اور نا انصافیاں بھی مٹ گئیں، اور انسانوں کی ایک بڑی جماعت کو ان سے نجات ملی، قومی تعصبات سے اگر آزاد ہو کر ہم تاریخ و فلسفۂ تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم کو نظر آئے گا کہ دنیا میں جو چیز مٹی اس کو مٹ ہی جانا چاہیے تھا، اس کا مٹ جانا اس کی علامت ہے کہ اس میں زندہ رہنے کی صلاحیت ختم ہو گئی تھی، اور وہ اپنی عمر پوری کر چکی تھی، کسی دوسرے نظام زندگی کا اس پر غالب آ جانا اس بات کی دلیل ہے کہ غالب آنے والا نظام زندگی اس سے فائق و برتر تھا، اور زندگی کا زیادہ استحقاق اور استعداد رکھتا تھا، اب ان مٹی ہوئی تہذیبوں کا دوبارہ زندہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے فراعنۂ مصر کی مسالہ لگی ہوئی لاشوں (ممی) کو ان کے مقبروں سے نکال کر دوبارہ مصر کے تخت پر بٹھانا اور حکومت کے اختیارات کو ان کے حوالہ کرنا ہے، دنیا میں کوئی فلسفہ اور نظام زندگی بغیر روح اور اپنے مخصوص پیغام کے زندہ نہیں رہ سکتا، جن تہذیبوں کی روح نکل چکی، وہ اپنا پیغام اپنے زمانے کی محدود دنیا کو سناچکیں ، اب نہ ان میں عصر حاضر کی روح ہے نہ دنیا کے لیے کوئی پیغام، نہ ان کے پاس انسانیت کے مسائل و مشکلات کا کوئی حل ہے، نہ سرگشتہ و حیران قوموں کے لیے راہ عمل، اس لیے اب ان مردہ تہذیبوں کا زندہ کرنا طاقت اور وقت دونوں کا ضیاع اور ایک لاحاصل کام ہے۔
دعوت و جدوجہد کی چیز دراصل صحیح اور غیر فانی مذہب ہے، جس کو اللہ کے پیغمبر ہر ملک اور دور میں اور محمد رسولؐ آخری اور دائمی طور پر لے کر آئے، انھوں نے اس کے ذریعے سے انسانوں کو دنیا اور آخرت کی فلاح کا پیغام دیا، خالق سے ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑا، توحید خالص کا سبق پڑھایا، حساب کتاب کی اخروی زندگی کا منتظر بنایا، نیکی اور بدی کے معین حدود بتلائے، اور اخلاق و معاشرت و حقوق باہمی کے وہ بے خطا اصول و ضوابط عطا کیے، جن پر ہر دور میں حیات انسانی کی تنظیم ہوسکتی ہے، اور مدنیت صالحہ وجود میں آتی ہے، ان کے احکام پر عمل کرنے سے خود بخود ایک زندگی پیدا ہوتی ہے جو افراط و تفریط اور ہر طرح کی بے اعتدالیوں سے پاک ہوتی ہے، ایک معاشرہ قائم ہوتا ہے، جو امن و سکون، اطمینان قلب، اشتراک و تعاون ا ور اعتدال و توازن کا بہترین نمونہ ہوتا ہے، اس کی بنیادیں ٹھوس لیکن اس کی فضا وسیع ہے، اس میں فولاد کی طرح بیک وقت صلابت اور لچک دونوں موجود ہیں ، یہ وہ زندگی اور معاشرہ ہے جس پر کسی قوم و نسل کی چھاپ اور کسی قومیت اور وطنیت کا ٹھپہ نہیں ، یہ انسانیت کی دولت مشترکہ ہے جس میں کسی قوم اور ملک کی اجارہ داری نہیں ، اس سے نہ چین کو انکار ہوسکتا ہے، نہ ہندوستان کو عار، نہ ایران کے لیے وحشت کی کوئی وجہ ہے، نہ یورپ کے لیے گریز کی کوئی راہ، پرامن اور کامل زندگی کے لیے اس کے سوا کوئی نمونہ ہی نہیں ۔
آپ کا جی چاہے تو آپ اس زندگی کو بھی تہذیب کہہ سکتے ہیں جو ان عقائد و احکام سے وجود میں آئی ہیں ، لیکن آپ اس کو عربی تہذیب یا ایرانی تمدن نہیں کہہ سکتے، اس کو کسی ملک اور قوم اور اس کے طرز تعمیر اور فنون لطیفہ سے دلچسپی نہیں ، اور وہ کسی قومی تمدن یا ملکی تہذیب کی نمائندہ اور وکیل نہیں ، ہر ملک میں اس کا تجربہ کیا جا سکتا ہے، اور ہر قوم اس کو اپنا سکتی ہے، مٹ جانے والے تمدنوں پر اس کی بنیاد نہیں ، ایمانیات و عقائد اور غیر متبدل حقائق پر اس کی بنیاد ہے جو نبی دنیا میں لے کر آئے، اس لیے اس کے مٹنے اور دوبارہ زندہ کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ۔