اللہ کی طرف سے دعوت

275

امام قرطبیؒ فرماتے ہے کہ قبیلہ اشعریین کے لوگ جب ہجرت کرکہ مدینہ منورہ پہنچے تو ان کا کھانے پینے کا سامان ختم ہوچکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنا ایک آدمی رسول اللہؐ کی خدمت بھیجا کہ ہمارے کھانے پینے کا کوئی انتظام کیا جائے۔ وہ آدمی جب رسولؐ کے گھر کے دروازے پہ پہنچا تو رسول اللہؐ کی آواز آرہی تھی جو قرآن پاک کی اس آیت
مفہوم: ’’ہر چوپائے ہر زرق اللہ کے ذمے ہے‘‘۔ (ہود 6)
کی تلاوت کررہے تھے۔ یہ آیت سنتے ہی اس کے دل میں خیال آیا کہ جب اللہ تعالی نے ہر ایک کے رزق کا ذمہ لیا ہے تو پھر ہم تو انسان ہیں، جانوروں سے گئے گزرے نہیں۔ وہ ضرور ہمارے لیے رزق کا بندوبست کرے گا۔ وہ وہیں سے واپس آگیا اور رسول اللہؐ کو کچھ نہیں بتایا۔
ساتھیوں کے پاس پہنچا تو سب کو بلند آواز سے کہا
’’ساتھیوں خوش ہوجاؤ اللہ کی مدد آنے والی ہے‘‘
وہ سمجھے کہ یہ بندہ چونکہ رسول اللہؐ کے پاس عرض کرنے گیا تھا اس لیے رسول اللہؐ نے کھانا بھیجنے کا وعدہ کرلیا ہوگا۔ لہذا وہ خوشی خوشی اپنے کاموں میں لگ گئے۔ اور مطمئن ہوگئے۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دو بندے ایک بڑا سا برتن لے کر آئے جو گوشت اور روٹیوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ دو بندے کھانا دے کر چلے گئے، سب نے شکم سیر ہوکر خوب کھایا، لیکن اب بھی کافی سارا کھانا بچ گیا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ یہ بچا ہوا کھانا رسول اللہؐ کی خدمت میں واپس بھیج دیا۔ تاکہ بوقت ضرورت استعمال ہوسکے۔
دو آدمی کھانا لیکر نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! آپ کا بھیجا ہوا کھانا بہت مزے دار تھا۔ رسول اللہؐ نے جب سنا تو فرمایا کہ میں نے تو کوئی کھانا نہیں بھیجا تھا۔ ایک بندے نے کہا یارسول اللہ! ہم بہت بھوکے تھے ہم نے بھوک کی حالت میں آپ کی طرف اپنا بندہ بھیجا تھا کہ ہمیں تھوڑا کھانا عنایت فرمائے۔اتنے میں وہ بندہ بھی آگیا۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! جب میں آیا تو آپ قرآن پاک کی آیت پڑھ رہے تھے، لہذا میں نے سوچا کہ جو ذات جانوروں کے رزق کی ذمے داری اٹھا رہی ہے وہ ذات ہماری بھی ذمے دار ہے۔ اس لیے میں آپ کو کچھ بتائے بغیر چلا گیا۔ تب رسول اللہؐ مسکرائے اور فرمایا یہ رزق میں نے نہیں بلکہ اس پرودگار نے بھیجا تھا جو ہر شے کے رزق کا ذمے دار ہے۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پہ ہوتا ہے۔ ہماری نیتیں ہی خراب ہوچکی ہے۔ اس وجہ سے برکت اور اللہ پہ بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ (تفسیر القرطبی 7-9)