شعب ابی طالب مکمل بائیکاٹ

851

صفی الرحمن مبارکپوری

جب مشرکین کے تمام حیلے ختم ہوگئے اور انہوں نے یہ دیکھا کہ بنی ہاشم اور بنی مطلب ہرچہ باداباد نبی ؐکی حفاظت اور بچاؤ کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں تو وہ حیرت سے چکرا گئے اور بالآخر وادئ مُحصَّب میں خیف بنی کنانہ کے اندر جمع ہوکر آپس میں بنی ہاشم اور بنی مطلب کے خلاف یہ عہد وپیمان کیا کہ نہ ان سے شادی بیاہ کریں گے ، نہ خرید وفروخت کریں گے۔ نہ ان کے ساتھ اُٹھیں بیٹھیں گے ، نہ ان سے میل جول رکھیں گے ، نہ ان کے گھروں میں جائیں گے،نہ ان سے بات چیت کریں گے، جب تک کہ وہ رسول ؐکو قتل کرنے کے لیے ان کے حوالے نہ کردیں۔ مشرکین نے اس بائیکاٹ کی دستاویز کے طور پر ایک صحیفہ لکھا جس میں اس بات کا عہد وپیمان کیا گیا تھا کہ وہ بنی ہاشم کی طرف سے کبھی بھی کسی صلح کی پیش کش قبول نہ کریں گے، نہ ان کے ساتھ کسی طرح کی مروت برتیں گے جب تک کہ وہ رسولؐ کو قتل کرنے کے لیے مشرکین کے حوالے نہ کردیں۔
بہر حال یہ عہد وپیمان طے پا گیا اور صحیفہ خانہ کعبہ کے اندر لٹکا دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ابولہب کے سوا بنی ہاشم اور بنی مطلب کے سارے افراد خواہ مسلمان رہے ہوں یا کافر سمٹ سمٹا کر شِعَبِ ابی طالب میں محبوس ہوگئے۔ یہ نبیؐ کی بعثت کے ساتویں سال محرم کی چاند رات کا واقعہ ہے۔
اس بائیکاٹ کے نتیجے میں حالات نہایت سنگین ہوگئے۔ غلّے اور سامان خورونوش کی آمد بند ہوگئی۔ کیونکہ مکے میں جو غلہ یا فروختنی سامان آتا تھا اسے مشرکین لپک کر خرید لیتے تھے۔ اس لیے محصورین کی حالت نہایت پتلی ہوگئی، انہیں پتے اور چمڑے کھانے پڑے۔ فاقہ کشی کا حال یہ تھا بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں اور عورتوں کی آوازیں گھاٹی کے باہر سنائی پڑتی تھیں۔ ان کے پاس بمشکل ہی کوئی چیز پہنچ پاتی تھی ، وہ بھی پس پردہ وہ لوگ حرمت والے مہینوں کے علاوہ باقی ایام میں اشیائے ضرورت کی خرید کے لیے گھاٹی سے باہر نکلتے بھی نہ تھے اور پھر انہیں قافلوں کا سامان خرید سکتے تھے جو باہر سے مکہ آتے تھے لیکن ان کے سامان کے دام بھی مکے والے اس قدر بڑھا کر خریدنے کے لیے تیار ہوجاتے تھے کہ محصورین کے لیے کچھ خریدنا مشکل ہوجاتا تھا۔
ادھر ابو طالب کو رسول ؐکے بارے میں برابر خطرہ لگا رہتا تھا اس لیے جب لوگ اپنے اپنے بستروں پر جاتے تو وہ رسولؐ سے کہتے تم اپنے بستر پر سوئے رہو۔ مقصد یہ ہوتا کہ اگر کوئی شخص آپ کو قتل کرنے کی نیت رکھتا ہوتو دیکھ لے کہ آپ کہا ں سو رہے ہیں۔ پھر جب لوگ سو جاتے تو ابوطالب آپ کی جگہ بدل دیتے، یعنی اپنے بیٹوں ، بھائیوں یا بھتیجوں میں سے کسی کو رسولؐ کے بستر پر سلا دیتے اور رسولؐ سے کہتے کہ تم اس کے بستر پر چلے جاؤ۔
ان حالات پر پورے تین سال گزر گئے۔ اس کے بعد محرم 10 نبوت میں صحیفہ چاک کیے جانے اور اس ظالمانہ عہد وپیمان کو ختم کیے جانے کا واقعہ پیش آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شروع ہی سے قریش کے کچھ لوگ اگر اس عہد و پیمان سے راضی تھے تو کچھ ناراض بھی تھے اور انہی ناراض لوگوں نے اس صحیفے کو چاک کر نے کی تگ و دو کی۔
(ایک دن )سب لوگ حسب ِ معمول اپنی اپنی محفلوں میں پہنچے۔ زہیر بھی ایک جوڑا زیبِ تن کیے ہوئے پہنچا۔ پہلے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر بولا: مکے والو!کیا ہم کھا نا کھائیں ، کپڑے پہنیں اور بنوہاشم تباہ وبرباد ہوں۔ نہ ان کے ہاتھ کچھ بیچا جائے نہ ان سے کچھ خریدا جائے۔ اللہ کی قسم !میں بیٹھ نہیں سکتا یہاں تک کہ اس ظالمانہ اور قرابت شکن صحیفے کو چاک کر دیا جائے۔
ابو جہل، جو مسجد حرام کے ایک گوشے میں موجود تھا- بولا : تم غلط کہتے ہو۔ اللہ کی قسم! اسے پھاڑا نہیں جاسکتا۔
اس پر زمعہ بن اسود نے کہا : واللہ! تم زیادہ غلط کہتے ہو۔ جب یہ صحیفہ لکھا گیا تھا تب بھی ہم اس سے راضی نہ تھے۔
اس پر ابو البختری نے گرہ لگا ئی : زمعہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے نہ ہم راضی ہیں نہ اسے ماننے کو تیار ہیں۔ اس کے بعد مطعم بن عدی نے کہا: تم دونوں ٹھیک کہتے ہو اور جو اس کے خلاف کہتا ہے غلط کہتا ہے۔ ہم اس صحیفہ سے اور اس میں جو کچھ لکھا ہوا ہے اس سے اللہ کے حضور براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔
پھر ہشام بن عمرو نے بھی اسی طرح کی بات کہی۔
یہ ماجرا دیکھ کر ابوجہل نے کہا : ہونہہ۔ یہ بات رات میں طے کی گئی ہے اور اس کا مشورہ یہاں کے بجائے کہیں اور کیا گیا ہے۔
اس دوران ابو طالب بھی حرم پاک کے ایک گوشے میں موجود تھے۔ ان کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے رسول ؐ کو اس صحیفے کے بارے میں یہ خبر دی تھی کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے کیڑے بھیج دیے ہیں۔ جنہوں نے ظلم وستم اور قرابت شکنی کی ساری باتیں چٹ کردی ہیں اور صرف اللہ عزوجل کا ذکر باقی چھوڑا ہے۔ پھر نبیؐ نے اپنے چچا کو یہ بات بتائی تو وہ قریش سے یہ کہنے آئے تھے کہ ان کے بھتیجے نے انہیں یہ اور یہ خبر دی ہے اگر وہ جھوٹا ثابت ہوا تو ہم تمہارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جائیں گے اور تمہارا جو جی چاہے کرنا ، لیکن اگر وہ سچاثابت ہوا تو تمہیں ہمارے بائیکاٹ اور ظلم سے باز آنا ہوگا اور اس پر قریش نے کہا تھا : آپ انصاف کی بات کہہ رہے ہیں۔
ادھر ابوجہل اور باقی لوگوں کی نوک جھونک ختم ہوئی تو مطعم بن عدی صحیفہ چاک کرنے کے لیے اٹھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ واقعی کیڑوں نے اس کا صفایا کردیا ہے۔ صرف باسمک اللھم باقی رہ گیا ہے اور جہاں جہا ں اللہ کا نام تھا وہ بچا ہے، کیڑوں نے اسے نہیں کھا یا تھا۔
اس کے بعد صحیفہ چاک ہوگیا۔ رسولؐ اور بقیہ تمام حضرات شعب ابی طالب سے نکل آئے اور مشرکین نے آپ کی نبوت کی ایک عظیم الشان نشانی دیکھی ، لیکن ان کا رویہ وہی رہا۔ جس کا ذکر اس آیت میں ہے:
“اگر وہ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو رخ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا پھرتا جادو ہے”۔ (۵۴:۲)
چنانچہ مشرکین نے اس نشانی سے بھی رخ پھیر لیا اور اپنے کفر کی راہ میں چند قدم اور آگے بڑھ گئے۔