کوئی کسی کو کما کر نہیں دیتا

331

ڈاکٹر خالد مشتاق

’’ایک تباہی کشمیر میں زلزلے نے مچائی، دوسری تباہی آپ کے ساتھی ڈاکٹر شمیم نے اسلام آباد میں مچائی‘‘۔
اسلام آباد کے ایک سینئر ڈاکٹر صاحب سے یہ الفاظ سن کر میں حیران رہ گیا۔ 2005ء میں آزاد کشمیر میں KPK میں زلزلہ آیا تھا۔ ہم زلزلہ ریلیف کے کام میں مصروف تھے۔ اسی کام سے سینئر ڈاکٹر صاحب سے ملنے گئے تھے۔ انہوں نے میڈیکل کے کاموں پر بات چیت کے بعد یہ بات کہی۔ ڈاکٹر صاحب نے تفصیل بتائی کہ یہ وہی ڈاکٹر شمیم صاحب ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ 2000ء میں افغان مہاجرین کے میڈیکل ریلیف میں کام کیا تھا۔ ڈاکٹر شمیم راولپنڈی کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے اسلام آباد میں ایک بزنس شروع کیا جس میں سرمایہ (رقم) اسلام آباد کے سفید پوش سے حاصل کیا۔ اس میں یونیورسٹی کے اساتذہ، ریٹائرڈ بیورو کریٹ، سرکاری ملازم تھے۔ سرکاری ملازمت کے ساتھ کاروبار کرنا بہت مشکل ہے اس لیے انہیں بتایا کہ آپ کی جمع کی ہوئی رقم کو کاروبار کے ذریعے ماہانہ آمدنی میں اضافہ ہوگا اور یہ کاروبار سود سے پاک ہے۔ آپ کو کچھ بھی نہیں کرنا ہوگا، گھر بیٹھیں اپنی ملازمت کریں، ہم آپ کا منافع پہنچا دیا کریں گے۔
سینئر ڈاکٹر صاحب نے کہا ’’ڈاکٹر خالد صاحب زلزلہ کی تباہی کو تو میڈیا کے ذریعے سب جانتے ہیں، اس سے لوگوں کو ہمدردی ہے، ریلیف کا کام ہورہا ہے، لیکن کوئی بھی ان سفید پوش لوگوں کے غم تباہی بتانے والا نہیں۔ یہ تباہی و بربادی کی خاموش داستان ہے۔ یہ تو بتا بھی نہیں سکتے ان کے ساتھ کتنا بڑا سانحہ ہوا ہے‘‘۔
جب ان سینئر ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹر شمیم صاحب سے پوچھا آپ نے کیا کیا، جواب میں انہوں نے کہا ’’اللہ کا مال تھا چلا گیا، کاروبار نفع نقصان پر تھا۔ اگر نقصان ہوگیا تو اللہ کی مرضی…‘‘۔ اور پھر صبر پر خود ہی لیکچرا دے دیا۔
یہ سن کر مجھے افغان مہاجرین کی میڈیکل ریلیف کے دوران ہونے والے واقعات یاد آگئے۔
2000ء میں پاک افغان سرحدی علاقے چمن میں افغان مہاجرین کیمپ میں میڈیکل ریلیف کا کام ہورہا تھا۔ افغان جنگ ہورہی تھی، قریبی شہر قندھار کے زخمی اور بیمار چمن آرہے تھے۔ افغان مہاجرین سرحدی شہر چمن، افغانستان بارڈر پر ولیش اور اسپین بلدک میں تھے۔ میڈیکل او پی ڈی مختلف کیمپس میں ہوئیں۔
پاکستانی ڈاکٹرز کے علاوہ انگلینڈ، ملیشیا، سائوتھ افریقا اور دیگر ممالک سے ڈاکٹرز کی ٹیمیں فرائض انجام دے رہی تھیں۔ ڈاکٹر شمیم صاحب ایک بڑی این جی او میں ذمے دار تھے اور ان کی این جی او سے دیگر ڈاکٹرز اور این جی او رابطہ میں تھیں۔
ڈاکٹر شمیم صاحب کے بارے میں دیگر ڈاکٹرز اور عملہ کا یہ تبصرہ تھا۔ مریضوں کی خدمت کے بجائے ایک نصیحت کرنے والا، ڈانٹنے والا، زبردستی اپنی بات منوانے کی کوشش کرنے والا اور لیکچر دینے والا فرد۔ پہلی نگاہ میں ڈاکٹر صاحب کا حلیہ دیکھ کر فرد انہیں مذہبی، بڑا تقویٰ والا سمجھا لیکن جب وہ کلینک کے افراد، مریض سے بات کرتے تو لگتا انہوں نے اخلاق کا ’’ق‘‘ بھی نہیں سیکھا۔
آفس میں آنے والے بیورو کریٹ، امیر لوگوں، دوسری این جی او کے نمائندوں سے وہ جھک کر بات کرتے۔ ذاتی تعلقات بنانے کی کوشش کرتے، تاثر یہ دیتے کہ سارے ریلیف کے کام میں مرکزی کردار انہی کا ہے۔
اس دو انداز کے کردار کو دیکھ کر معلوم کیا تو پتا چلا کہ ان کے رشتہ دار بڑے بااثر اور ڈونر (Donor) امیر فرد ہیں۔ ان سے تعلقات کی بہتری کی سوچ کے خیال سے انہیں ’’ذمے دار انچارج‘‘ بنایا گیا ہے۔ ان کے اس اسٹائل کو دیکھ کر مخلص ڈاکٹرز نے جلد ہی ان کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
چمن شہر پاک افغان بارڈر پر واقع ہے۔ چمن شہر میں افغانستان سے انگور، انار آتے ہیں۔ اسی لیے یہ افغانی انگور چمن کے نام سے مشہور ہیں۔ چمن میں باغ نہیں ہیں، اس شہر میں اتنے بڑے کاروباری افراد ہیں کہ بوری میں بھر کر نوٹ بینک لاتے۔ اس وقت نوٹ گننے کی مشین وہاں نہیں تھی، بینک ملازم رکھتے نوٹ گننے کے لیے۔
ڈاکٹر شمیم صاحب اور ان کے دوست کاروبار کا یہ انداز دیکھ کر باتیں کرتے کہ کاروبار اگر ہم بھی کریں تو ہماری مالی پوزیشن بہت بہتر ہوسکتی ہے۔
دوسروں سے متاثر ہوکر ان کی سوچ میں مال زیادہ کمانے کا یہ جذبہ ہی تھا کہ جب کچھ عرصے بعد یہ اسلام آباد پہنچے تو انہوں نے کاروبار کا پلان بنایا۔
ریلیف کے کام کے ذریعے پاکستان کے دیگر شہروں میں یہ اپنا نام اور تعلقات بنا چکے تھے۔
ان کے چند دوست ٹیلی کام میں تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ملک بھر میں PCO (پبلک کال آفس) کا نیٹ ورک بنالیتے ہیں۔ انہیں آئیڈیا پسند آیا، نیٹ ورک تو یہ ریلیف کے کام کے ذریعے بنا چکے تھے۔ ان کے دیگر دوستوں نے اپنے شہروں میں کام شروع کیا۔
ریلیف کے کام کے ذریعے جو شہرت ملی، بااثر فرد کے رشتہ دار مذہبی حلیہ و لباس اور پھر مذہبی باتیں، سود کے خلاف باتیں کرنا اور Prerentation دینا۔ انٹرنیشنل این جی او کے واقعات، ان سب کے ذریعے لوگ متاثر ہوئے۔ انہوں نے ریٹائر ہونے والے ملازمین، جائداد کی تقسیم کے ذریعے ملنے والے سرمایہ، باہر سے کما کر آنے والے افراد کو ٹارگٹ کیا اور انہیں غیر سودی، منافع بخش کاروبار پر راضی کرلیا۔ یہ زمانہ ٹیلی کام کے بزنس کے نیچے جانے کا تھا۔ پی سی او ختم ہونے جارہے تھے، موبائل فون کا دور آرہا تھا، نتیجہ کاروبار نہ چل سکا۔ سرمایہ ایسے آلات خریدنے میں چلا گیا جو ناکارہ ہوگئے۔
ڈاکٹر شمیم صاحب اور ان کے ساتھی افراد برے انجام سے دوچار ہوئے۔
٭ یہ خود بدنام ہوگئے۔
٭ ان کے دوست، رشتہ دار مشکل میں آگئے۔
٭ خود انگزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہوئے۔
٭ ان کے گھروں میں مسائل ہوئے، خواتین طعنے سنتیں، بچے ماں باپ کو نفسیاتی دبائو کے ماحول میں دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہوگئے، پریشانی، غصہ، چڑچڑا پن پیدا ہوا، تعلیم میں مشکلات ہونے لگیں۔
٭ ’’سود کے بغیر کاروبار نہیں ہوسکتا‘‘ یہ جملے لوگ کہنے لگے۔ ان کی لالچ اور ناتجربہ کاری نے مذہبی جذبات کو نقصان پہنچایا۔
٭ اس نقصان میں ان کی ذات کے علاوہ انہیں میرٹ کے خلاف، تعلقات اور امیر بااثر خاندان سے تعلق کی بنیاد پر این جی او کا ذمے دار بنانے والے بھی ذمے دار تھے۔
بنیادی خرابی میرٹ کا قتل ہے، پھر 2 نمبر افراد ہی آگے آتے ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کے حادثات سے کیسے بچیں۔
-1 دوسرے کے بڑے کاروبار سے متاثر ہوکر خود بھی کبھی ڈائریکٹ بڑا کاروبار اچانک شروع نہ کریں۔
بڑے تربوز، کٹھل جیسے پھل بھی ایک چھوٹے سے بیج سے پیدا ہوتے ہیں۔ قرآن نے پودوں کے بڑھنے پر غور کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس پر ضروری غور کریں۔
-2 کسی فرد کو ریلیف کا کام کرتے دیکھیں تو اس سے متاثر ہوکر اس پر اندھا اعتماد نہ کریں۔ ذاتی حلیہ، مذہبی باتیں سن کر رائے قائم نہ کریں۔
بزنس کرنا ہے تو کسی ماہر سے، وکیل سے، اکائونٹنٹ سے ضرور مشورہ کریں۔
-3 پنشن کے بعد ملنے والی رقم، باہر سے کماکر آنے والے، جائداد میں حصہ ملا ہو یا نوکری سے Golden Shake Hand میں بڑی رقم ملے۔ کسی پر ظاہر نہ کریں۔
آئیڈیاز دینے والوں سے ہوشیار رہیں۔
مذہبی جذبات ابھار کر کاروبار میں شراکت کرنے والوں پر ایک دم بھروسا نہ کریں۔ ماہرین سے مشورہ ضرور کریں۔
-4 یاد رکھیں اگر کسی کاروبار میں آپ کو کچھ بھی نہ کرنا پڑے، وہ کاروبار نہ کریں، کاروبار میں اپ کچھ نہ کریں اور دوسرا محنت کرکے آپ کو کما کر دے گا یہ خیال ہوسکتا ہے، حقیقت نہیں۔